برائے اصلاح : ایک غزل،'' میں تو پاگل ہوں ، ذرا دیر گوارا کرنا '' محمد اظہر نذیر

میں تو پاگل ہوں ، ذرا دیر گوارا کرنا
ضبط جب حد سے گزر جائے، اشارا کرنا

اس سے پہلے بھی سہے میں نے جدائی کے ستم
جب بھی چاہو مری جاناں تو کنارا کرنا

لمس ہاتھوں کا مرے زلف بھلا ہی دے گی
اب جو بکھرے تو اسے خود ہی سنوارا کرنا

یہ تمنا ہے ذرا آنکھ سے اوجھل ہو لیں
پھر رقیبوں کو چلو آنکھ کا تارا کرنا

ہم نہ ہوں گے تو عدو سارے بلانا اظہر
بیچ بستی میں کھڑے ہو کہ پکارا کرنا​
 
کچھ تبدیلیاں

میں تو پاگل ہوں ، ذرا دیر گوارا کرنا
ضبط جب حد سے گزر جائے، اشارا کرنا

اس سے پہلے بھی سہے میں نے جدائی کے ستم
جب بھی چاہو مری جاناں تو کنارا کرنا

لمس ہاتھوں کا مرے بھول ہی جائے گی یہ زلف
اب جو بکھرے تو اسے خود ہی سنوارا کرنا

یہ تمنا ہے ذرا آنکھ سے اوجھل ہو لیں
پھر رقیبوں کو چلو آنکھ کا تارا کرنا

ہم نہ ہوں گے تو ہی دشمن کو بلانا اظہر
کون روکے گا، سر عام پکارا کرنا
 

الف عین

لائبریرین
میں تو پاگل ہوں ، ذرا دیر گوارا کرنا
ضبط جب حد سے گزر جائے، اشارا کرنا
//درست

اس سے پہلے بھی سہے میں نے جدائی کے ستم
جب بھی چاہو مری جاناں تو کنارا کرنا
//پہلے مصرع میں ایک ’ہے/ہیں‘ کی کمی محسوس ہوتی ہے۔دوسرے مصرع میں محاورہ غلط ہو رہا ہے، بشمول ’مری جاناں‘ کے بھرتی فقرے کے۔ یعنی بات یوں ہونی چاہئے کہ ’جب چاہو، کنارا کر لینا‘ یا ’کنارا کرنے کا فیصلہ کرنا‘۔ اس کا کچھ اور سوچو۔ پہلے مصرع کی ایک صورت یوں ہو سکتی ہے
میں نے پہلے بھی جدائی کے ستم جھیلے ہیں
یا
واسطے میرے جدائی تو نئی بات نہیں

لمس ہاتھوں کا مرے بھول ہی جائے گی یہ زلف
اب جو بکھرے تو اسے خود ہی سنوارا کرنا
//اس طرح رواں کیا جا سکتا ہے
لمس ہاتھوں کا مرے بھول نہ جائیں زلفیں
اس صورت میں
اب جو بکھریں۔۔۔۔

یہ تمنا ہے ذرا آنکھ سے اوجھل ہو لیں
پھر رقیبوں کو چلو آنکھ کا تارا کرنا
//شعر واضح نہیں۔ تمنا ایسی کیوں ہے؟

ہم نہ ہوں گے تو ہی دشمن کو بلانا اظہر
کون روکے گا، سر عام پکارا کرنا
// پہلا مصرع زیادہ واضح نہیں، مراد شاید یہ ہے
چاہے دشمن کو بلا لینا، نہ ہوں جب اظہر
 
Top