برائے اصلاح....ایک غزل

عینی خیال

محفلین
ابھی تک تم نہیں سمجھے ہماری ان کہی باتیں
ہماری آنکھ کے تیور ہماری راز کی باتیں

ہمارے ہونٹ ہلتے ہیں مگرخاموش رہتے ہیں
ہماری خامشی نے صاف کہہ دیں پیار کی باتیں

چلو اک خواب بنتے ہیں مہکتے ایک جنگل کا
چلو کے آج کرتے ہیں گل و گلزار کی باتیں

ہیں کتنے دل یہاں چیھنی،بہت آنکیھں یہاں پرنم
بہت سے زخم بھرنے ہیں ،ہیں کرنی چار کی باتیں

ابھی سے تھک گئے ہو تم ابھی کہنا بہت کچھ ہے
ابھی تو شام ڈھلنی ہے،ہیں کرنی یار کی باتیں۔۔۔
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ابھی تک تم نہیں سمجھے ہماری ان کہی باتیں
ہماری آنکھ کے تیور ہماری راز کی باتیں

ہمارے ہونٹ ہلتے ہیں مگرخاموش رہتے ہیں
ہماری خامشی نے صاف کہہ دیں پیار کی باتیں

چلو اک خواب بنتے ہیں مہکتے ایک جنگل کا
چلو کہ آج کرتے ہیں گل و گلزار کی باتیں

ہیں کتنے دل یہاں چیھنی،بہت آنکھیں یہاں پرنم
بہت سے زخم بھرنے ہیں ،ہیں کرنی چار کی باتیں
ہیں،ہیں کی جگہ اگر مجھ کو یا مجھے کر دیا جائے تو بحر کے حساب سے۔ کیونکہ پتہ نہیں اس کی بحر کیا ہے، میں نے تو اندازہ ہی لگایا ہے۔

ابھی سے تھک گئے ہو تم ابھی کہنا بہت کچھ ہے
ابھی تو شام ڈھلنی ہے،ہیں کرنی یار کی باتیں۔۔۔
چیھنی: اس لفظ کی سمجھ نہیں آئی۔
(نوٹ: اسے سنجیدگی سے نہ لیا جائے، یہ تو میں اپنی مشق کے لئے آ گیا تھا)
 

الف عین

لائبریرین
زمین غلط ہی ہے۔۔
مطلع، اگر پہلے شعر کو یہی کہا جائے تو، میں ردیف محض ’باتیں‘ اور قوافی۔ ان کہی، راز کی، یعنی ’ی‘ پر ختم ہونے والے ۔ جیسے رہی، کھلی، چھپی، وغیرہ
لیکن دوسرے شعروں میں ردیف ’کی باتیں‘ ہو گئی ہے۔ اور قوافی گلزار، چار، بیکار یعنی ’ار‘ پر ختم ہونے والے الفاظ۔
پہلے زمین طے کر کے خود ہی اصلاح کر لو، پھر میں میدان میں اترتا ہوں۔ اگر ضرورت پڑی تو۔۔۔
 
زمین غلط ہی ہے۔۔
مطلع، اگر پہلے شعر کو یہی کہا جائے تو، میں ردیف محض ’باتیں‘ اور قوافی۔ ان کہی، راز کی، یعنی ’ی‘ پر ختم ہونے والے ۔ جیسے رہی، کھلی، چھپی، وغیرہ
لیکن دوسرے شعروں میں ردیف ’کی باتیں‘ ہو گئی ہے۔ اور قوافی گلزار، چار، بیکار یعنی ’ار‘ پر ختم ہونے والے الفاظ۔
پہلے زمین طے کر کے خود ہی اصلاح کر لو، پھر میں میدان میں اترتا ہوں۔ اگر ضرورت پڑی تو۔۔۔

علم کی نسبت سے سوال ہے.
کیا "کی" کو قافیہ تسلیم نہیں کیا جاسکتا؟
اگر نہیں تو کیوں ؟ جہاں تک میرا علم ہے تو غزل میں ہر شعر الگ شعر ہوتا ہے سوائے مطلعے کے. یعنی ہر شعر کی انفرادی طور پر جانچ پڑتال کی خاطر مطلعے سے رجوع کیا جاتا ہے نہ کے بقیہ اشعار سے.
اسی اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے اگر عینی کی غزل کے ہر شعر کو الگ الگ مطلعے سے ملا کر دیکھا جائے تو کیا قافیہ میں کوئی غلطی ہو گی؟
کیونکہ ایک ہی لفظ کو ایک غزل میں ایک سے زائد مرتبہ قافیہ کرنے کی مثالیں اساتذہ کے کلام میں موجود ہیں. وجہ یہی کے ہر شعر کا تعلق ذاتی اور انفرادی حیثیت میں مطلعے سے ہوتا ہے. اصلاح کا طالب ہوں.
 

الف عین

لائبریرین
تمہاری بات واضح نہیں ہوئی مزمل۔ راز کی‘ تو میں نے قوافی کے طور پر قبول کیا ہی ہے!!
 
Top