برائے اصلاح - بہت شکریہ!

عجب سی کشمکش میں لوگ ہم کو چھوڑ جاتے ہیں
تمهارا نام لے کر آج بهی ہم کو بلاتے ہیں

عبادت اور الفت میں نہیں کچھ فرق نیت کا
جہاں بگڑی بنانی ہو وہاں سر کو جهکاتے ہیں

ہمیں ایسے وہ آ کے رنج و غم اپنے سناتے ہیں
کچھ ایسے دوست ہیں روتے ہوئے دل کو رلاتے ہیں

چلو پهر سے ملیں پهر سے کریں آغاز الفت کا
گئی عمروں کے وہ لمحے ہمیں پهر سے بلاتے ہیں
 
عجب سی کشمکش میں لوگ ہم کو چھوڑ جاتے ہیں
تمهارا نام لے کر آج بهی ہم کو بلاتے ہیں

پہلا شعر بے عیب اور لا جواب لگتا ہے۔۔
عبادت اور الفت میں نہیں کچھ فرق نیت کا
عبادت اور الفت میں نیت کا فرق کیوں کر ہو؟ شاید یوں بہتر رہے،
جہاں بگڑی بنانی ہو وہاں سر کو جهکاتے ہیں

یہاں نیت کو آپنے "نیّت" باندھا ہے۔۔ شاید قابل قبول بات نہیں۔
ہمیں ایسے وہ آ کے رنج و غم اپنے سناتے ہیں
کچھ ایسے دوست ہیں روتے ہوئے دل کو رلاتے ہیں

دوسرے مصرع میں "دوست" کی "ت" گرتی ہے۔۔۔ اسے "یار" کردیں بہتری آئے گی۔ اور اسے مطلع کے فوراً بعد حسن مطلع کے طور پر رکھ دیں۔
چلو پهر سے ملیں پهر سے کریں آغاز الفت کا
گئی عمروں کے وہ لمحے ہمیں پهر سے بلاتے ہیں
خوب شعر ہوا ہے۔
مقطع کی کمی شدید ہے۔
بہت اعلیٰ غزل ہوئی ہے۔۔۔ داد مقبول خاطر ہو۔۔۔
 

احمد بلال

محفلین
اچھی غزل ہے۔ خوب صورت کلام ہے۔ البتہ مہدی نقوی حجاز صاحب سےمعذرت کے ساتھ۔۔۔
نیت کا درست تلفظ وہی ہے جو محترمہ نے باندھا ہے یعنی بتشدید ی۔ لہذا محترمہ کا مصرع تقطیع میں درست ہوا۔
اس کے علاوہ دوست یہاں صحیح تقطیع ہو رہا ہے۔ اس پہ حجت غالب کا مصرع ہے ع
دوستدار دشمن ہے، اعتمادِ دل معلوم بحر فاعلن مفاعیلن، فاعلن مفاعیلن۔ البتہ یہاں قاعدہ کیا لگ رہا اور لگ رہا ہے بھی یا نہیں ، یہ @محمدوارث صاحب، الف عین صاحب ، مزمل شیخ بسمل صاحب جیسے فنِ عروض کے ماہرین ہی بتائیں گے۔
لیکن سارہ بشارت گیلانی صاحبہ مجھے اس شعر کے پہلے مصرعے میں "ایسے " کھٹک رہا ہے۔ اگر ا س کی جگہ اکثر کر دیں تو میرے خیال میں بہتر ہو جائے گا۔ یعنی "ہمیں اکثر وہ آ کے رنج و غم اپنے سناتے ہیں"۔
 
بہت اعلیٰ غزل ہوئی ہے۔۔۔ داد مقبول خاطر ہو۔۔۔
اچھی غزل ہے۔ خوب صورت کلام ہے۔ البتہ مہدی نقوی حجاز صاحب سےمعذرت کے ساتھ۔۔۔
نیت کا درست تلفظ وہی ہے جو محترمہ نے باندھا ہے یعنی بتشدید ی۔ لہذا محترمہ کا مصرع تقطیع میں درست ہوا۔
اس کے علاوہ دوست یہاں صحیح تقطیع ہو رہا ہے۔ اس پہ حجت غالب کا مصرع ہے ع
دوستدار دشمن ہے، اعتمادِ دل معلوم بحر فاعلن مفاعیلن، فاعلن مفاعیلن۔ البتہ یہاں قاعدہ کیا لگ رہا اور لگ رہا ہے بھی یا نہیں ، یہ @محمدوارث صاحب، الف عین صاحب ، مزمل شیخ بسمل صاحب جیسے فنِ عروض کے ماہرین ہی بتائیں گے۔
لیکن سارہ بشارت گیلانی صاحبہ مجھے اس شعر کے پہلے مصرعے میں "ایسے " کھٹک رہا ہے۔ اگر ا س کی جگہ اکثر کر دیں تو میرے خیال میں بہتر ہو جائے گا۔ یعنی "ہمیں اکثر وہ آ کے رنج و غم اپنے سناتے ہیں"۔

لفظ ’’دوست، گوشت، پوست، زیست وغیرہ میں جو تیسرا ساکن یعنی ”ت“ ہے وہ نوے فیصد سے بھی زیادہ شعرا نے اپنے کلام میں گرایا ہے۔ بلکہ اگر یوں کہوں کے اسے شمار ہی نہیں کیا جاتا تو غلط نہ ہوگا۔
نیت کا وزن بھی احمد سے اتفاق کرتے ہوئے فعلن ہی ہے جو شاعرہ کے حق میں ہے۔
 
اچھی غزل ہے۔ خوب صورت کلام ہے۔ البتہ مہدی نقوی حجاز صاحب سےمعذرت کے ساتھ۔۔۔
نیت کا درست تلفظ وہی ہے جو محترمہ نے باندھا ہے یعنی بتشدید ی۔ لہذا محترمہ کا مصرع تقطیع میں درست ہوا۔
اس کے علاوہ دوست یہاں صحیح تقطیع ہو رہا ہے۔ اس پہ حجت غالب کا مصرع ہے ع
دوستدار دشمن ہے، اعتمادِ دل معلوم بحر فاعلن مفاعیلن، فاعلن مفاعیلن۔ البتہ یہاں قاعدہ کیا لگ رہا اور لگ رہا ہے بھی یا نہیں ، یہ @محمدوارث صاحب، الف عین صاحب ، مزمل شیخ بسمل صاحب جیسے فنِ عروض کے ماہرین ہی بتائیں گے۔
لیکن سارہ بشارت گیلانی صاحبہ مجھے اس شعر کے پہلے مصرعے میں "ایسے " کھٹک رہا ہے۔ اگر ا س کی جگہ اکثر کر دیں تو میرے خیال میں بہتر ہو جائے گا۔ یعنی "ہمیں اکثر وہ آ کے رنج و غم اپنے سناتے ہیں"۔

بہت بہت شکریہ!
میں آپ سب سے بہت کچھ سیکھ رہی ہوں۔
I'm really very thankful to all of you for your help
 

احمد بلال

محفلین
مقطع کے لئے تھوڑی سی guidance چاہیئے please.
مقطع میں کیا خاص ہوتا ہے؟ میرا کوئی تخلص نہیں ہے۔
sounds silly to be asking but I really don't know
خیر کوئی بات نہیں۔ یہاں ایسے ایسے نو مشق بھی آتے ہیں جن کا کوئی مصرع ڈھنگ کا نہیں ہوتا۔ آپ کا کلام بہت بہتر ہے۔ جب تک تخلص نہیں ہو گا مقطع ناممکن ہے۔ کیونکہ مقطع ہوتا ہی وہ ہے جس میں تخلص ہو۔
 

الف عین

لائبریرین
نیت کا تلفظ بالکل درست ہے اور ’دوست‘ کا استعمال بھی جائز ہی ہے۔ غزل مکمل درست ہے، البتہ زبان و بیان میں یہاں ’بگڑی بنتی‘ کا محل ہے۔ بگڑی بناتی‘ کا نہیں۔
 
اچھی غزل ہے۔ خوب صورت کلام ہے۔ البتہ مہدی نقوی حجاز صاحب سےمعذرت کے ساتھ۔۔۔
نیت کا درست تلفظ وہی ہے جو محترمہ نے باندھا ہے یعنی بتشدید ی۔ لہذا محترمہ کا مصرع تقطیع میں درست ہوا۔
اس کے علاوہ دوست یہاں صحیح تقطیع ہو رہا ہے۔ اس پہ حجت غالب کا مصرع ہے ع
دوستدار دشمن ہے، اعتمادِ دل معلوم بحر فاعلن مفاعیلن، فاعلن مفاعیلن۔ البتہ یہاں قاعدہ کیا لگ رہا اور لگ رہا ہے بھی یا نہیں ، یہ @محمدوارث صاحب، الف عین صاحب ، مزمل شیخ بسمل صاحب جیسے فنِ عروض کے ماہرین ہی بتائیں گے۔
لیکن سارہ بشارت گیلانی صاحبہ مجھے اس شعر کے پہلے مصرعے میں "ایسے " کھٹک رہا ہے۔ اگر ا س کی جگہ اکثر کر دیں تو میرے خیال میں بہتر ہو جائے گا۔ یعنی "ہمیں اکثر وہ آ کے رنج و غم اپنے سناتے ہیں"۔
معذرت کی کوئی جا نہیں محترم۔۔۔ ہم بھی اپنی ہی اصلاح کی خاطر یہاں طبع آزمائی کر رہے تھے۔۔
 
Top