برائے اصلاح : تصویر

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن


تصویر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میسر تو نہیں لیکن تری تصویر ہے جاناں
تری تصویر کو بے ساختہ میں چوم لیتا ہوں
کبھی ان جھیل آنکھوں میں کئی پل ڈوب جاتا ہوں
بہت میں بھیگ جاتا ہوں
کبھی میں زوم کر کے گھنٹوں تکتا رہتا ہوں اس کو
کبھی میں وال پیپر پر لگاتا ہوں
اگر میں ہونٹ چوموں تو سماں خوشبو کا ہو جائے
اگر میں انگلیاں زلفوں میں پھیروں تو
بہت تازہ شگفتہ شبنمی بوندیں مرے دل پر برستی ہیں
اگر میں سر مئی آنچل کو چھو لوں تو
کئی رنگوں کی آنچل سے شعائیں پھوٹ پڑتی ہیں
اگر دستِ حنا چھو لوں تو پھر اک لہر دل میں دوڑتی ہے جو
ر گ و پے میں عجب احساس کو بیدار کرتی ہے
اسے دل سے لگاؤں تو
بدن میں تازگی محسوس ہوتی ہے۔
کبھی تصویر سے باتیں میں کرتا ہوں
اگر یونہی میں یہ کہہ دوں
مجھے اچھی نہیں لگتی
تو مجھ سے روٹھ جاتی ہے
بہت منت سماجت کر کے پھر اس کو مناتا ہوں
اگر کہہ دوں
مجھے تجھ سے محبت ہے
تبسم زیرِ لب لا کر
لپٹ جاتی ہے مجھ سے یہ
پھر اس کا لمس میری روح تک محسوس ہوتا ہے
مری یہ زندگانی کا اثاثہ ہے
میسر تو نہیں لیکن تری تصویر ہے جاناں

یاسر علی میثم
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کئی پل ڈوب جاتا ہوں
؟؟ شاید مراد یہ ہو کہ کافی عرصے کے لئے ڈوب جاتا ہوں؟
بہت میں بھیگ جاتا ہوں
. بھیگنا اور ڈوب کر تر بتر ہونا مختلف ہے

اگر میں انگلیاں زلفوں میں پھیروں تو
بہت تازہ شگفتہ شبنمی بوندیں مرے دل پر برستی ہیں
.. اگر کے ساتھ یوں بولا جاتا ہے کہ 'ایسا ہو جائے' یہاں 'برستی ہیں' سے بہتر 'برس جائیں' کا محل ہے

اگر میں سر مئی آنچل کو چھو لوں تو
کئی رنگوں کی آنچل سے شعائیں پھوٹ پڑتی ہیں
.. کئی رنگوں کی؟ آنچل تو سرمئی ہے؟
اور ایک تصحیح، اصلاح نہیں
شعاعیں، شعائیں نہیں، شعاع کی جمع
اگر یونہی میں یہ کہہ دوں
مجھے اچھی نہیں لگتی
.. کیا اچھی نہیں لگتی؟ تصویر یا جاناں؟ واضح کرو

مری یہ زندگانی کا اثاثہ ہے
.... یہ میری زندگانی کا اثاثہ ہے
بہتر نہیں
 

یاسر علی

محفلین
الف عین

اصلاح کے بعد دوبارہ

تصویر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میسر تو نہیں لیکن تری تصویر ہے جاناں
تری تصویر کو بے ساختہ میں چوم لیتا ہوں
کبھی ان جھیل آنکھوں میں کئی پل ڈوب جاتا ہوں
( ویسے مراد لیا جا سکتا ہے۔لیکن میں نے لکھتے وقت یہ نہیں سوچا تھا)
کبھی میں زوم کر کے گھنٹوں تکتا رہتا ہوں اس کو
کبھی میں وال پیپر پر لگاتا ہوں
اگر میں ہونٹ چوموں تو سماں خوشبو کا ہو جائے
اگر میں انگلیاں زلفوں میں پھیروں تو
بہت تازہ شگفتہ شبنمی بوندیں مرے دل پر برس جائیں
اگر آنچل کو چھو لوں تو
کئی رنگوں کی آنچل سے شعاعیں پھوٹ پڑتی ہیں
اگر دستِ حنا چھو لوں تو پھر اک لہر دل میں دوڑتی ہے جو
ر گ و پے میں عجب احساس کو بیدار کرتی ہے
اسے دل سے لگاؤں تو
بدن میں تازگی محسوس ہوتی ہے۔
کبھی تصویر سے باتیں میں کرتا ہوں
اگر یونہی میں یہ کہہ دوں
کہ تو اچھی نہیں لگتی
تو مجھ سے روٹھ جاتی ہے
بہت منت سماجت کر کے پھر اس کو مناتا ہوں
اگر کہہ دوں
مجھے تجھ سے محبت ہے
تبسم زیرِ لب لا کر
لپٹ جاتی ہے مجھ سے یہ
پھر اس کا لمس میری روح تک محسوس ہوتا ہے
یہ میری زندگانی کا اثاثہ ہے
میسر تو نہیں لیکن تری تصویر ہے جاناں

یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
کئی پل ڈوبنا اب بھی پسند نہیں آیا، یہی بات یوں بھی تو کہی جا سکتی ہے؟
جھیل سی آنکھوں میں یکسر ڈوب جاتا ہوں
باقی تو درست ہے ہی
 
Top