مقبول
محفلین
استادِ محترم الف عین صاحب، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ یہ غزل پیشِ خدمت ہے
تمہی سےلے لیے ہیں اس نے رنگ کچھ اُدھار میں
وگرنہ کیا رکھا ہے خالی آتشِ چنار میں
کبھی نہ دے سکا جسے شکست کوئی جنگ میں
وُہ جان ہار بیٹھا اس کی اک نگہ کے وار میں
برہنگی نہیں ہے ، آئنہ یہ ہے سماج کا
نشانیاں ہیں کچھ مرے لباس تار تار میں
وُہ ایک شخص ہی مرا ہے محورِ حیات بس
گذار دی ہے زندگی بس ایک ہی مدار میں
ہے عشق کے علاوہ میں نے عمر بھر کیا بھی کیا
ہے کون مجھ کو جانتا ، میں ہوں تو کس شمار میں
یہی تو دو علامتیں ہیں اس کے ہونے کی کہیں
ہو دل دھڑکنا تیز، اضافہ خون کے فشار میں
مری رہی ہمیشہ خوبصورتی عزیز اسے
بٹا گیا وہ ہاتھ میری لاش کے سنگھار میں
تمہی سےلے لیے ہیں اس نے رنگ کچھ اُدھار میں
وگرنہ کیا رکھا ہے خالی آتشِ چنار میں
کبھی نہ دے سکا جسے شکست کوئی جنگ میں
وُہ جان ہار بیٹھا اس کی اک نگہ کے وار میں
برہنگی نہیں ہے ، آئنہ یہ ہے سماج کا
نشانیاں ہیں کچھ مرے لباس تار تار میں
وُہ ایک شخص ہی مرا ہے محورِ حیات بس
گذار دی ہے زندگی بس ایک ہی مدار میں
ہے عشق کے علاوہ میں نے عمر بھر کیا بھی کیا
ہے کون مجھ کو جانتا ، میں ہوں تو کس شمار میں
یہی تو دو علامتیں ہیں اس کے ہونے کی کہیں
ہو دل دھڑکنا تیز، اضافہ خون کے فشار میں
مری رہی ہمیشہ خوبصورتی عزیز اسے
بٹا گیا وہ ہاتھ میری لاش کے سنگھار میں
آخری تدوین: