مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی التماس ہے
پھر مل سکا اس کو کہیں بھی میں نہ زیرِ آسماں
جب رکھ دیا اس نےمجھے جام و سبو کے درمیاں
اب ہےتمہارے دیس میں رہنا کہ چاہے کچھ بھی ہو
ہم تو یہاں پر آ گئے ہیں سب جلا کر کشتیاں
وُہ مانتا پھر بھی نہیں آنے کی گھر پر التجا
حالانکہ میرے گھر کے رستے میں بچھی ہے کہکشاں
کوئی نہ جائے چُبھ کہیں اُس نازنیں کے پاؤں میں
چنتے رہے ہم شہر بھر سے اپنے دل کی کرچیاں
عزت نہ اپنی اب رہی لوگوں کی اپنے ہاتھ میں
معصوم لوگوں کی اچھلتی ہیں یہاں پر پگڑیاں
وُہ گھر کی مرغی کو سمجھتے ہیں برابر دال کے
جو جو بھی رکھتے ہیں سجا کر سر پہ اپنے کلغیاں
وُہ بھی شریکِ جرم تھا، قسمت کے دیکھو فیصلے
مہندی کے دن اس کے، پڑیں پیروں میں میرے بیڑیاں
رکھتا ہے شاید یاد وُہ برسی ہمارے پیار کی
ہر سال مجھ کو لگتی ہیں اس دن مسلسل ہچکیاں
دو ہی نشاں اب تک ملے ہم کو جُدائی کے ترے
رستا جگر سے خوں مرے ، دل سے نکلتی سسکیاں
نیرو بجاتا پھر رہا تھا بانسری کوہسار پر
جب روم میں تھیں جل رہی انسانوں کی سب بستیاں
مقبول رکھ لے ایک تختی ان میں سے اپنے لیے
لگتی ہیں تیرے نام کی منصوبوں پر جو تختیاں
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی التماس ہے
پھر مل سکا اس کو کہیں بھی میں نہ زیرِ آسماں
جب رکھ دیا اس نےمجھے جام و سبو کے درمیاں
اب ہےتمہارے دیس میں رہنا کہ چاہے کچھ بھی ہو
ہم تو یہاں پر آ گئے ہیں سب جلا کر کشتیاں
وُہ مانتا پھر بھی نہیں آنے کی گھر پر التجا
حالانکہ میرے گھر کے رستے میں بچھی ہے کہکشاں
کوئی نہ جائے چُبھ کہیں اُس نازنیں کے پاؤں میں
چنتے رہے ہم شہر بھر سے اپنے دل کی کرچیاں
عزت نہ اپنی اب رہی لوگوں کی اپنے ہاتھ میں
معصوم لوگوں کی اچھلتی ہیں یہاں پر پگڑیاں
وُہ گھر کی مرغی کو سمجھتے ہیں برابر دال کے
جو جو بھی رکھتے ہیں سجا کر سر پہ اپنے کلغیاں
وُہ بھی شریکِ جرم تھا، قسمت کے دیکھو فیصلے
مہندی کے دن اس کے، پڑیں پیروں میں میرے بیڑیاں
رکھتا ہے شاید یاد وُہ برسی ہمارے پیار کی
ہر سال مجھ کو لگتی ہیں اس دن مسلسل ہچکیاں
دو ہی نشاں اب تک ملے ہم کو جُدائی کے ترے
رستا جگر سے خوں مرے ، دل سے نکلتی سسکیاں
نیرو بجاتا پھر رہا تھا بانسری کوہسار پر
جب روم میں تھیں جل رہی انسانوں کی سب بستیاں
مقبول رکھ لے ایک تختی ان میں سے اپنے لیے
لگتی ہیں تیرے نام کی منصوبوں پر جو تختیاں