برائے اصلاح -جب یار ہو پہلو میں یہ جان نکل جائے

انس معین

محفلین
سر اصلاح کی درخواست ہے
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
عظیم

پھر جاوں گا کعبے کو پھر ڈھونڈوں گا بت خانے
پہلے مرے دل سے وہ بیمان نکل جائے

کچھ اور نہیں مانگا ان وقت کی گھڑیوں سے
جب یار ہو پہلو میں یہ جان نکل جائے

تم اپنا مجھے کہہ کر اک بار پکارو ناں
بے نام سے اس دل کا ارمان نکل جائے

کیا چیز نہیں چکھنی پہلے ہی بتائیے گا
جنت سے کہیں پھر نا انسان نکل جائے
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلے شعر کا تو قافیہ ہی بے معنی ہے
دوسرا شعر درست ہے

تم اپنا مجھے کہہ کر اک بار پکارو ناں
بے نام سے اس دل کا ارمان نکل جائے
.... ناں کوئی لفظ نہیں، محض 'نا' درست ہے تاکید کے لیے۔ اس کے بعد '!' ضرور لگائیں

کیا چیز نہیں چکھنی پہلے ہی بتائیے گا
جنت سے کہیں پھر نا انسان نکل جائے
بتائیے کا الف ساقط ہو گیا کے
نا، اوپر کے شعر کے استعمال میں درست ہے، لیکن 'نہ' کے معنوں میں نہیں
پہلے ہی بتا دے/دیں یہ کیا شے نہ جکھی جائے
پھر یوں نہ ہو جنت سے انسان نکل جائے
ایک ممکنہ شکل
 

انس معین

محفلین
پہلے شعر کا تو قافیہ ہی بے معنی ہے
دوسرا شعر درست ہے

تم اپنا مجھے کہہ کر اک بار پکارو ناں
بے نام سے اس دل کا ارمان نکل جائے
.... ناں کوئی لفظ نہیں، محض 'نا' درست ہے تاکید کے لیے۔ اس کے بعد '!' ضرور لگائیں

کیا چیز نہیں چکھنی پہلے ہی بتائیے گا
جنت سے کہیں پھر نا انسان نکل جائے
بتائیے کا الف ساقط ہو گیا کے
نا، اوپر کے شعر کے استعمال میں درست ہے، لیکن 'نہ' کے معنوں میں نہیں
پہلے ہی بتا دے/دیں یہ کیا شے نہ جکھی جائے
پھر یوں نہ ہو جنت سے انسان نکل جائے
ایک ممکنہ شکل
بہت شکریہ سر
 

فلسفی

محفلین
پھر جاوں گا کعبے کو پھر ڈھونڈوں گا بت خانے
پہلے مرے دل سے وہ بیمان نکل جائے
بہت خوب انس بھائی، گو قافیہ کا مسئلہ ہے لیکن خیال اچھا ہے۔ اس کو یوں کہا جاسکتا ہے جو مطلع بھی بن جائے گا۔

اک رب ہے مرا محبوب یہ مان نکل جائے
یا پھر مرے دل سے وہ انسان نکل جائے

کیا چیز نہیں چکھنی پہلے ہی بتائیے گا
جنت سے کہیں پھر نا انسان نکل جائے
یہ بھی خوب کہا، میری زور آزمائی ملاحظہ کیجیے

ممنوع ہر اک شے کا ادراک ضروری ہے
جنت سے نہ پھر کوئی انسان نکل جائے

سر الف عین کیا یہ مصرعہ بحر میں آ سکتا ہے؟
ایسا نہ ہو جنت سے پھر انسان نکل جائے
 

انس معین

محفلین
بہت خوب انس بھائی، گو قافیہ کا مسئلہ ہے لیکن خیال اچھا ہے۔ اس کو یوں کہا جاسکتا ہے جو مطلع بھی بن جائے گا۔

اک رب ہے مرا محبوب یہ مان نکل جائے
یا پھر مرے دل سے وہ انسان نکل جائے


یہ بھی خوب کہا، میری زور آزمائی ملاحظہ کیجیے

ممنوع ہر اک شے کا ادراک ضروری ہے
جنت سے نہ پھر کوئی انسان نکل جائے

سر الف عین کیا یہ مصرعہ بحر میں آ سکتا ہے؟
ایسا نہ ہو جنت سے پھر انسان نکل جائے
بہت شکریہ ۔ عظیم بھائی ۔
ان کو بھی سامنے رکھتاہوں ۔
 

الف عین

لائبریرین
بہت خوب انس بھائی، گو قافیہ کا مسئلہ ہے لیکن خیال اچھا ہے۔ اس کو یوں کہا جاسکتا ہے جو مطلع بھی بن جائے گا۔

اک رب ہے مرا محبوب یہ مان نکل جائے
یا پھر مرے دل سے وہ انسان نکل جائے


یہ بھی خوب کہا، میری زور آزمائی ملاحظہ کیجیے

ممنوع ہر اک شے کا ادراک ضروری ہے
جنت سے نہ پھر کوئی انسان نکل جائے

سر الف عین کیا یہ مصرعہ بحر میں آ سکتا ہے؟
ایسا نہ ہو جنت سے پھر انسان نکل جائے
پھر انسان... وزن میں نہیں
 

انس معین

محفلین
سر غزل تبدیل کر کے دوبارہ حاضر ہوں
الف عین
عظیم
فلسفی



ہم ہجر کے قصوں کا عنوان نہ ہو جائیں
ڈرتا ہوں کہ ہم دونوں انجان نہ ہو جائیں

اک ساز نہ بن جائیں گزرے ہوئے لمحوں کا
ہم روتی ہوئی شب کے مہمان نہ ہو جائیں

دیکھو نہ ہمیں ایسے ان مست سی آنکھوں سے
ہم پھر سے کہیں تم پر قربان نہ ہو جائیں

اس زند گی کے سب رستے کتنے ہی مشکل ہیں
گر ساتھ چلو تم بھی آسان نہ ہو جائیں

تلوار اٹھا کر وہ میرے قتل کو گر آئیں
ہنستا جو مجھے دیکھیں حیران نہ ہو جائیں

اس بار نہیں چکھنا کس چیز کو جنت میں ؟
بے دخل وہاں سے پھر انسان نہ ہو جائیں

آیا نہ کوئی احمد جس شہر میں برسوں سے
اس شہر کی مانند ہم سنسان نہ ہو جائیں
 
آخری تدوین:
سر غزل تبدیل کر کے دوبارہ حاضر ہوں
الف عین
عظیم
فلسفی



ہم ہجر کے قصوں کا عنوان نہ ہو جائیں
ڈرتا ہوں کہ ہم دونوں انجان نہ ہو جائیں

اک ساز نہ بن جائیں گزرے ہوئے لمحوں کا
ہم روتی ہوئی شب کے مہمان نہ ہو جائیں

دیکھو نہ ہمیں ایسے ان مست سی آنکھوں سے
ہم پھر سے کہیں تم پر قربان نہ ہو جائیں

اس زند گی کے سب رستے کتنے ہی مشکل ہیں
گر ساتھ چلو تم بھی آسان نہ ہو جائیں

تلوار اٹھا کر وہ میرے قتل کو گر آئیں
ہنستا جو مجھے دیکھیں حیران نہ ہو جائیں

اس بار نہیں چکھنا کس چیز کو جنت میں ؟
بے دخل وہاں سے پھر انسان نہ ہو جائیں

آیا نہ کوئی احمد جس شہر میں برسوں سے
اس شہر کی مانند ہم سنسان نہ ہو جائیں

انس بھائی ن کی تکرار سے تنافر ہے جو اچھا نہیں لگ رہا
 

الف عین

لائبریرین
سر غزل تبدیل کر کے دوبارہ حاضر ہوں
الف عین
عظیم
فلسفی



ہم ہجر کے قصوں کا عنوان نہ ہو جائیں
ڈرتا ہوں کہ ہم دونوں انجان نہ ہو جائیں

اک ساز نہ بن جائیں گزرے ہوئے لمحوں کا
ہم روتی ہوئی شب کے مہمان نہ ہو جائیں

دیکھو نہ ہمیں ایسے ان مست سی آنکھوں سے
ہم پھر سے کہیں تم پر قربان نہ ہو جائیں

اس زند گی کے سب رستے کتنے ہی مشکل ہیں
گر ساتھ چلو تم بھی آسان نہ ہو جائیں

تلوار اٹھا کر وہ میرے قتل کو گر آئیں
ہنستا جو مجھے دیکھیں حیران نہ ہو جائیں

اس بار نہیں چکھنا کس چیز کو جنت میں ؟
بے دخل وہاں سے پھر انسان نہ ہو جائیں

آیا نہ کوئی احمد جس شہر میں برسوں سے
اس شہر کی مانند ہم سنسان نہ ہو جائیں
ردیف بدل دینے کی ضرورت؟ اگرچہ تنافر کی خامی پچھلی ردیف میں بھی تھی، جان نکل، ایمان نکل وغیرہ میں ۔ مگر وہی بہتر تھی
 
Top