مقبول
محفلین
محترمین
سر الف عین ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب کی خدمت میں یہ غزل اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں
کیونکہ ابھی تک استادِ محترم الف عین صاحب نے بھی رائے نہیں دی اور تدوین کا وقت بھی موجود تھا تو کچھ اضافی اشعار ہونے کی وجہ سے غزل کو دو غزلہ کر دیا ہے ۔ طوالت پر معذرت
غزل ۱
جسم بکنے سرِ بازار نہیں آئے گا
گر کوئی اس کا خریدار نہیں آئے گا
پوچھنے میرا اگر یار نہیں آئے گا
تو کوئی اور بھی غم خوار نہیں آئے گا
حسن کو روپ میں جلاد کے آنا ہو گا
عشق ایسے تو سرِ دار نہیں آئے گا
جان قربان نہیں عشق میں ہو گی تجھ سے
تیرے حصے میں یہ ایثار نہیں آئے گا
نہ ضمانت ملی جنت میں ترے ساتھ کی گر
موت کے ہاتھ یہ بیمار نہیں آئے گا
جو بنا دھوپ دمکتا ہو تمہارے جیسا
اور زمیں پر کوئی رخسار نہیں آئے گا
عشق کرنا ہے تو پھر حوصلہ بھی رکھ مقبول
نہ سمجھ، راستہ پر خار نہیں آئے گا
غزل ۲
کوہ پر ہے جو، وُہ گلزار نہیں آئے گا
سر کیا گر نہ وُہ کہسار ، نہیں آئے گا
ظلم کو مات نہیں ہو گی اگر اس کے خلاف
کوئی بھی بر سرِ پیکار نہیں آئے گا
ڈر کی زنجیر میں جکڑے ہی رہیں گے سب لوگ
رہ نما گر کوئی جی دار نہیں آئے گا
مجھ کو ہے قید نہ رکھنے کی یہ صیاد کی شرط
میرے لب پر کبھی انکار نہیں آئے گا
تھام لو دستِ حسین آیا ہے پھر دورِ یزید
یہ وہ موقع ہے جو ہر بار نہیں آئے گا
مجرم ایسے ہی رہا ہوتے رہیں گے ، منصف
جب تلک صاحبِ کردار نہیں آئے گا
ہاتھ میں رکھ دے کوئی مفت میں ہی آزادی
وقت ایسا مری سرکار ، نہیں آئے گا
تم کو ہی کھولنا ہے راستہ اپنا مقبول
اور گرانے کوئی دیوار نہیں آئے گا
سر الف عین ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب کی خدمت میں یہ غزل اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہوں
کیونکہ ابھی تک استادِ محترم الف عین صاحب نے بھی رائے نہیں دی اور تدوین کا وقت بھی موجود تھا تو کچھ اضافی اشعار ہونے کی وجہ سے غزل کو دو غزلہ کر دیا ہے ۔ طوالت پر معذرت
غزل ۱
جسم بکنے سرِ بازار نہیں آئے گا
گر کوئی اس کا خریدار نہیں آئے گا
پوچھنے میرا اگر یار نہیں آئے گا
تو کوئی اور بھی غم خوار نہیں آئے گا
حسن کو روپ میں جلاد کے آنا ہو گا
عشق ایسے تو سرِ دار نہیں آئے گا
جان قربان نہیں عشق میں ہو گی تجھ سے
تیرے حصے میں یہ ایثار نہیں آئے گا
نہ ضمانت ملی جنت میں ترے ساتھ کی گر
موت کے ہاتھ یہ بیمار نہیں آئے گا
جو بنا دھوپ دمکتا ہو تمہارے جیسا
اور زمیں پر کوئی رخسار نہیں آئے گا
عشق کرنا ہے تو پھر حوصلہ بھی رکھ مقبول
نہ سمجھ، راستہ پر خار نہیں آئے گا
غزل ۲
کوہ پر ہے جو، وُہ گلزار نہیں آئے گا
سر کیا گر نہ وُہ کہسار ، نہیں آئے گا
ظلم کو مات نہیں ہو گی اگر اس کے خلاف
کوئی بھی بر سرِ پیکار نہیں آئے گا
ڈر کی زنجیر میں جکڑے ہی رہیں گے سب لوگ
رہ نما گر کوئی جی دار نہیں آئے گا
مجھ کو ہے قید نہ رکھنے کی یہ صیاد کی شرط
میرے لب پر کبھی انکار نہیں آئے گا
تھام لو دستِ حسین آیا ہے پھر دورِ یزید
یہ وہ موقع ہے جو ہر بار نہیں آئے گا
مجرم ایسے ہی رہا ہوتے رہیں گے ، منصف
جب تلک صاحبِ کردار نہیں آئے گا
ہاتھ میں رکھ دے کوئی مفت میں ہی آزادی
وقت ایسا مری سرکار ، نہیں آئے گا
تم کو ہی کھولنا ہے راستہ اپنا مقبول
اور گرانے کوئی دیوار نہیں آئے گا
آخری تدوین: