جو تیرے در کا ہوا نہیں ہوں
تو اپنے گھر بھی گیا نہیں ہوں
شیخ جنت چھپائے مجھ سے
ابھی میں کافر ہوا نہیں ہوں
عشق اندر سے کھا چکا ہے
ذرا بھی باقی بچا نہیں ہوں
تری گلی سے گزر گیا ہوں
میں اب کی باری رکا نہیں ہوں
بہت شکریہ سربحر شاید مفاعلاتن دو بار ہے۔
دو مصرعے بحر سے خارج ہو گئے ہیں جو محض فاعلات سے شروع ہو رہے ہیں، اب یہ خود ہی پہچان!
شعر کا ایک سقم اور ہے، دونوں مصرعوں کا ایک ردیف پر ختم ہونا
تری گلی سے گزر گیا ہوں
بھی *ہوں" پر ختم ہوتا ہے جو ردیف کا حصہ ہے
ترتیب بدل کر
گزر گیا ہوں تری گلی سے
کیا جا سکتا ہے