برائے اصلاح: جو مری خطاؤں سے در گذر کرے ایسے در کی تلاش ہے

مقبول

محفلین
محترمین
سر الف عین
دیگر اساتذہ کرام و احباب سے اصلاح کی گذارش کے ساتھ ایک غزل پیشِ خدمت ہے

جو مری خطاؤں سے در گذر کرے ایسے در کی تلاش ہے
وُہ جو ہر گناہ سے پاک کر دے اس اک نظر کی تلاش ہے

نہیں نفرتوں سے کوئی غرض نہیں سازشوں کا کوئی پتہ
ہو محبتوں کا جہاں پہ راج بس اس نگر کی تلاش ہے

مری عاشقی کی اخیر ہے مری سادگی کی ہے انتہا
مجھے اس کو پانے کی آرزو، جسے مال و زر کی تلاش ہے

یہاں لوگ ایسے ہیں بے شمار جو خود کو کہتے ولی ہیں خود
جو قبول اپنی خطا کرے مجھے اس بشر کی تلاش ہے

کیا ہم نے اس کا وُہ حال ہے کہ دُعا بھی ہو چکی بے اثر
یہ ہے ملک بسترِ مرگ پر، دوا کارگر کی تلاش ہے

جو ضمیر سوئے جگا دے پھر ، جو گرے ہوؤں کو اٹھا دے پھر
جو ہمیں بھی انساں بنا دے پھر، ہمیں اس ہنر کی تلاش ہے

میں بھی بد نصیب ہوں کس قدر مرا قافلہ ہے بھٹک گیا
ہمیں منزلوں کا پتہ نہیں ، ہمیں راہبر کی تلاش ہے

کبھی اس جگہ کبھی اس جگہ کوئی اک ٹھکانہ نہیں رہا
میں تو ہجرتوں سے ہوں تھک چکا مجھے مستقر کی تلاش ہے

میں جھٹک دوں ہاتھ اگر اس کا تو بھی وُہ تھام لے مرا ہاتھ پھر
جو قدم قدم مرا ساتھ دے اسی ہم سفر کی تلاش ہے

تُو نے حق کی راہ کو کیوں چُنا یہ حُسین جرم ہے کیوں کیا
کہ یزیدِ وقت ہے مشتعل اسے تیرے سر کی تلاش ہے
 

الف عین

لائبریرین
چار بار افاعیل کی بحر کو اکثر دو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے پڑھا جاتا ہے، اس لئے دونوں حصوں میں بات مکمل ہونی چاہیے، ورنہ عروضی غلطی تو نہیں لیکن سخت عدم روانی کا احساس ہوتا ہے، بیانیہ کے آس سقم کو حرف ب سے نشاندہی کر رہا ہوں ۔ہاں عروضی سقم وہاں کہا جا سکتا ہے جہاں حروف کا وصال کیا گیا ہو۔ (حرف و سے نشاندہی کر رہا ہوں)
جو مری خطاؤں سے در گذر کرے ایسے در کی تلاش ہے
وُہ جو ہر گناہ سے پاک کر دے اس اک نظر کی تلاش ہے
ب
نہیں نفرتوں سے کوئی غرض نہیں سازشوں کا کوئی پتہ
ہو محبتوں کا جہاں پہ راج بس اس نگر کی تلاش ہے
و
مری عاشقی کی اخیر ہے مری سادگی کی ہے انتہا
مجھے اس کو پانے کی آرزو، جسے مال و زر کی تلاش ہے
واضح بھی نہیں ہوا، عاشقی کی اخیر؟
ثانی مصرع میں بھی "ہے" کی غیر موجودگی میں بات مکمل نہیں ہو رہی
یہاں لوگ ایسے ہیں بے شمار جو خود کو کہتے ولی ہیں خود
جو قبول اپنی خطا کرے مجھے اس بشر کی تلاش ہے
و
کیا ہم نے اس کا وُہ حال ہے کہ دُعا بھی ہو چکی بے اثر
یہ ہے ملک بسترِ مرگ پر، دوا کارگر کی تلاش ہے
دوا کارگر؟ ترکیب درست نہیں، بغیر اضافت کے کارگر قافیہ نہیں بن سکتا
جو ضمیر سوئے جگا دے پھر ، جو گرے ہوؤں کو اٹھا دے پھر
جو ہمیں بھی انساں بنا دے پھر، ہمیں اس ہنر کی تلاش ہے
درست ہے، اگرچہ سوئے ہوئے ضمیر کی جگہ ضمیر سوئے اچھا نہیں
میں بھی بد نصیب ہوں کس قدر مرا قافلہ ہے بھٹک گیا
ہمیں منزلوں کا پتہ نہیں ، ہمیں راہبر کی تلاش ہے
شتر گربہ، دوسرے مصرعے میں بھی میں کا صیغہ استعمال کرو۔ کچھ دو لختی کا احساس بھی ہوتا ہے
کبھی اس جگہ کبھی اس جگہ کوئی اک ٹھکانہ نہیں رہا
میں تو ہجرتوں سے ہوں تھک چکا مجھے مستقر کی تلاش ہے
درست
میں جھٹک دوں ہاتھ اگر اس کا تو بھی وُہ تھام لے مرا ہاتھ پھر
جو قدم قدم مرا ساتھ دے اسی ہم سفر کی تلاش ہے
مجہول بیانیہ اولی مصرعے میں
تُو نے حق کی راہ کو کیوں چُنا یہ حُسین جرم ہے کیوں کیا
کہ یزیدِ وقت ہے مشتعل اسے تیرے سر کی تلاش ہے
"جرم تھا" بہتر ہو گا، شعر درست
 

مقبول

محفلین
سر الف عین ، بہت شکریہ
اب دیکھیے
جو کرے خطاؤں سے در گذر کسی ایسے در کی تلاش ہے
کرے ہر گناہ سے پاک جو مجھے اس نظر کی تلاش ہے
نہیں نفرتوں سے کوئی غرض نہیں سازشوں کا کوئی پتہ
جہاں ہوں خلوص و محبتیں ہمیں اس نگر کی تلاش ہے
واضح بھی نہیں ہوا، عاشقی کی اخیر؟
ثانی مصرع میں بھی "ہے" کی غیر موجودگی میں بات مکمل نہیں ہو رہی
مرا عشق کتنا ہے نا سمجھ مری سادگی کی ہے انتہا
مجھے اس کو پانے کی ہے طلب ، جسے مال و زر کی تلاش ہے
یہاں لوگ ملتے ہیں جا بجا وُہ جو خود کو کہتے ولی ہیں خود
جو قبول اپنی خطا کرے مجھے اس بشر کی تلاش ہے
دوا کارگر؟ ترکیب درست نہیں، بغیر اضافت کے کارگر قافیہ نہیں بن سکتا
نکال دیا ہے
درست ہے، اگرچہ سوئے ہوئے ضمیر کی جگہ ضمیر سوئے اچھا نہیں
جو سوئے ہوؤں کو جگا دے پھر ، جو گرے ہوؤں کو اٹھا دے پھر
جو ہمیں بھی انساں بنا دے پھر، ہمیں اس ہنر کی تلاش ہے
شتر گربہ، دوسرے مصرعے میں بھی میں کا صیغہ استعمال کرو۔ کچھ دو لختی کا احساس بھی ہوتا ہے
میں ہوں بد نصیب انہی میں سے جو ہیں راستے سے بھٹک چکے
جنہیں منزلوں کا پتہ نہیں ، جنہیں راہبر کی تلاش ہے
مجہول بیانیہ اولی مصرعے میں
میں رکوں کہیں تو وُہ جائے رُک میں جو چل پڑوں تو وہ چل پڑے
جو قدم قدم مرا ساتھ دے اسی ہم سفر کی تلاش ہے
"جرم تھا" بہتر ہو گا، شعر درست
تُو نے حق کی راہ کو کیوں چُنا یہ حُسین جرم تھا کیوں کیا
کہ یزیدِ وقت ہے مشتعل اسے تیرے سر کی تلاش ہے
 

الف عین

لائبریرین
باقی تو اب درست لگ رہے ہیں، ہم سفر والے شعر میں مفہوم کے اعتبار سے غلطی محسوس ہوتی ہے، جو شخص شاعر کے چلنے پرچلے اور رکنے پر رکنا ضروری ہو، وہ راہبر کس طرح ہوا؟ شاعر خود راہبر نہیں ہوا؟
 

مقبول

محفلین
باقی تو اب درست لگ رہے ہیں، ہم سفر والے شعر میں مفہوم کے اعتبار سے غلطی محسوس ہوتی ہے، جو شخص شاعر کے چلنے پرچلے اور رکنے پر رکنا ضروری ہو، وہ راہبر کس طرح ہوا؟ شاعر خود راہبر نہیں ہوا؟
سر الف عین ، شکریہ
ہم سفر والے شعر میں راہبر کا تو ذکر نہیں ہے۔ سر، کچھ وضاحت فرما دیں تو پھر میں درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
 
Top