برائے اصلاح: حل ہو سکا ہم سے نہ اب تک مسئلہ نور و بشر

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
سر، کل والی غزل کو اس کے حال پہ وہیں چھوڑ دیا ہے ۔ اسی زمین میں ایک اور غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے۔ ہو سکتا ہے اس میں کہیں نہ کہیں “ مقبولیت “ موجود ہو 😁😁

دیگر اساتذہ کرام اور احباب : آپ بھی اپنے مشوروں سے نوازیے

دنیا زمیں سے ہے گئی کب سے خلاؤں میں اتر
حل ہو سکا ہم سے نہ اب تک مسئلہ نور و بشر

مہنگائی سے مجبور غربا ، دے رہے ہیں جانیں خود
غربت مٹانے میں، نہیں چھوڑی حکومت نے کسر

اک باپ کو سوچوں نے آ گھیرا، کرے گا کل وُہ کیا
تھک ہار کر کرنے لگا تھا سیدھی جب اپنی کمر

کیا پیٹ بھر کر میرے بچے بھی کبھی کھائیں گے کُچھ ؟
کیا دُور بچوں سے مرے ہو گا کبھی فاقوں کا ڈر؟

گھر میرے بھی ہو گا کوئی امید کا سورج طلوع؟
کیا میرے بھی آنگن میں اترے گی کوئی روشن سحر؟

قابض زمینوں پر ہوا ہے مافیا اس ملک میں
کوشش کرے جو واپسی کی وُہ کٹائے اپنا سر

لٹکا دیے جاتے ہیں پھانسی پر وُہ پاگل لوگ جو
حق بات پر دربار میں ہو جاتے ہیں سینہ سپر

کب تک رہے گا قائم استحصال کا ظالم نظام
کب تک رہے گا تُو خُدا اس جُرم سے بھی بے خبر

سارے پرندے اُڑ گئے مسموم لگتی ہے فضا
کس نے کیا ہے یہ گُنہ ، کس نے یہ کاٹے ہیں شجر

دریا نے بڑھ کر کھا لی ہے اکثر کسانوں کی زمین
ہیں کاٹنے والے یہاں ، بوتا نہیں کوئی شجر
یا
کوئی تو ہو جو اس علاقے میں لگائے پھر شجر

مقبول جن کو پار جانا ہو اتر جاتے ہیں پار
دریاؤں میں موجود رہتے ہیں مگرمچھ اور بھنور
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
غیر مردف غزلوں میں اکثر روانی کی کمی محسوس کی جاتی ہے،" گزر جاتی ہے" جیسے سادہ رواں بیانیے کو "جاتی ہے گزر" جیسا مجہول بنانا پڑتا ہے۔ اس لئے میرا مشورہ مانو تو اس قسم کی غزلوں سے پرہیز کرو۔
اتفاق سے یہ بحر، مفعول فعلن فاعلن، تمہاری پسندیدہ لگتی ہے، مگر اس بحر میں ہی روانی کی کمی محسوس ہوتی ہے کم از کم مجھے!
حروف کے اسقاط سے بھی بچنے کی بہت ضرورت ہے، جو تمہاری "مقبولیت" کین آنی بنتی جا رہی ہے!
میرا مشورہ یہ ہے کہ ان دونوں غزلوں کو پھر دیکھو، اور منتخب اشعار برائے اصلاح پیش کرو۔
دو چار فاش اغلاط کا زکرکر دوں
مسئلہ نور و بشر تین لفظوں کا بے معنی مجموعہ ہے۔ مسئلۂ نور و بشر ہوتا تو شاید خیال نبی اکرم ص کی طرف جا سکتا تھا
غربا میں پہلے دونوں حروف پر پیش ہے
گھر میرے...، کھالی ہے... وغیرہ بیانیہ پسند نہیں آیا
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب، بہت شکریہ
۱-شاید میں نے ماضی میں بھی عرض کیا تھا کہ مجھ میں اتنی اہلیت نہیں ہے کہ پہلے کوئی بحر منتخب کروں اور پھر اس کے مطابق کچھ لکھوں۔ میں تو پہلے جو ذہن میں آتا ہے اسے لکھتا ہوں اور بعد میں چیک کرتا ہوں کہ کون سی بحر بن رہی ہے۔ میری کوئی پسندیدہ بحر نہیں ہے
۲- پچھلی غزل میں کیونکہ قافیہ بندی کا تاثر ملتا ہے۔ اس لیے اس پر تفصیلی کام کرکے کوئی متبادل الگ سے پیش کروں گا
۳- مطلع کا دوسرا مصرعہ بدل دیا ہے۔ تین چار الفاظ میں ی وغیرہ گر رہے تھے، انہیں درست کیا ہے۔ گھر میرے ۔۔اور —- کھا لی والے مصرعے بھی بدلنے کی کو شش کی ہے۔
۴- اس غزل میں، کچھ اشعار دو سیٹ کی صورت میں موجود ہیں۔ مجھے ایسا لگا کہ کوئی شعر نکالا تو اس بیانیے میں تسلسل نہیں رہے گا۔ اور اگر وہ سب اشعار نکال دیں تو غزل میں بچتا کچھ نہیں۔ اگر آپ نشاندہی فرما دیں کہ کون سے اشعار نکال دینے چاہیئیں تو میں انہیں نکال دوں گا۔
کچھ تصیح کے ساتھ غزل دوبارہ دیکھیے
دنیا زمیں سے ہے گئی کب کی خلاؤں میں اتر
پر ہم ہیں اونٹوں پر ہی کرنا چاہتے آگے سفر
یا
پر ہم بضد ہیں، ہم رکھیں گے جاری اونٹوں پر سفر

مزدور کو ہے کر دیا مجبور ، کر لے خود کشی
یا
مزدور کر لے خود کشی مہنگائی سے تنگ آ کے، یوں
غربت مٹانے میں، نہیں چھوڑی حکومت نے کسر

اک باپ کو سوچوں نے آ گھیرا، کرے گا کل وُہ کیا
سیدھی وُہ جب کرنے لگا تھک ہار کر اپنی کمر

میرے لیے بھی ہو گا کیا امید کا سورج طلوع؟
یا
کیا میرے گھر میں بھی ہو گا امید کا سورج طلوع؟
کیا میرے بھی آنگن میں اترے گی کوئی روشن سحر؟

کیا پیٹ بھر کر میرے بچے بھی کبھی کھائیں گے کچھ ؟
کیا دُور بچوں سے مرے ہو گا کبھی فاقوں کا ڈر؟

کب تک رہے گا قائم استحصال کا ظالم نظام
کب تک رہے گا تُو خُدا اس جُرم سے بھی بے خبر

قابض زمینوں پر ہوا ہے مافیا اس ملک میں
کوشش کرے جو واپسی کی وُہ کٹائے اپنا سر

لٹکا دیے جاتے ہیں پھانسی پر وُہ پاگل لوگ جو
حق بات پر دربار میں ہو جاتے ہیں سینہ سپر

سارے پرندے اُڑ گئے ،مسموم لگتی ہے فضا
کس نے کیا ہے یہ گُنہ ، کس نے یہ کاٹے ہیں شجر

دریا نے بڑھ کر گھیر لی اکثر کسانوں کی زمین
اس کے کناروں پر نہ جب باقی رہا کوئی شجر

مقبول جن کو پار جانا ہو اتر جاتے ہیں پار
دریاؤں میں موجود رہتے ہیں مگرمچھ اور بھنور
 

الف عین

لائبریرین
دنیا زمیں سے ہے گئی کب کی خلاؤں میں اتر
پر ہم ہیں اونٹوں پر ہی کرنا چاہتے آگے سفر
یا
پر ہم بضد ہیں، ہم رکھیں گے جاری اونٹوں پر سفر
...'ہے گئی' مجہول ہے، 'پر' بمعنی "مگر" بھی قابلِ قبول نہیں، زمیں سے خلا میں اترنا بھی عجیب لگتا ہے
دوسرا مصرع بھی یوں بہتر ہو گا
ہم ہیں کہ لیکن ضد میں ہیں اونٹوں پہ ہو اپنا سفر

مزدور کو ہے کر دیا مجبور ، کر لے خود کشی
یا
مزدور کر لے خود کشی مہنگائی سے تنگ آ کے، یوں
غربت مٹانے میں، نہیں چھوڑی حکومت نے کسر
.. پہلا مصرع اب بھی رواں نہیں

اک باپ کو سوچوں نے آ گھیرا، کرے گا کل وُہ کیا
سیدھی وُہ جب کرنے لگا تھک ہار کر اپنی کمر
.. درست

میرے لیے بھی ہو گا کیا امید کا سورج طلوع؟
یا
کیا میرے گھر میں بھی ہو گا امید کا سورج طلوع؟
کیا میرے بھی آنگن میں اترے گی کوئی روشن سحر؟
... دوسرا متبادل تو ہُگا کی وجہ سے نا قابلِ قبول ہے ۔ پہلا بہتر ہے

کیا پیٹ بھر کر میرے بچے بھی کبھی کھائیں گے کچھ ؟
کیا دُور بچوں سے مرے ہو گا کبھی فاقوں کا ڈر؟
.. دوسرا مصرع یوں بہتر ہو گا
... بچوں سے میرے دور ہو گا کیا کبھی فاقوں...

کب تک رہے گا قائم استحصال کا ظالم نظام
کب تک رہے گا تُو خُدا اس جُرم سے بھی بے خبر
.. درست

قابض زمینوں پر ہوا ہے مافیا اس ملک میں
کوشش کرے جو واپسی کی وُہ کٹائے اپنا سر
.. دوسرا مصرع اب بھی مجہول ہے

لٹکا دیے جاتے ہیں پھانسی پر وُہ پاگل لوگ جو
حق بات پر دربار میں ہو جاتے ہیں سینہ سپر
.. ٹھیک ہے، مگر روانی کم ہے

سارے پرندے اُڑ گئے ،مسموم لگتی ہے فضا
کس نے کیا ہے یہ گُنہ ، کس نے یہ کاٹے ہیں شجر
.. درست، یہ کس نے کاٹے ہیں شجر.. کیسا رہے گا؟

دریا نے بڑھ کر گھیر لی اکثر کسانوں کی زمین
اس کے کناروں پر نہ جب باقی رہا کوئی شجر
.. درست

مقبول جن کو پار جانا ہو اتر جاتے ہیں پار
دریاؤں میں موجود رہتے ہیں مگرمچھ اور بھنور
.. درست
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب ، بہت شکریہ
اب دیکھیے
دنیا زمیں سے ہے گئی کب کی خلاؤں میں اتر
پر ہم ہیں اونٹوں پر ہی کرنا چاہتے آگے سفر
یا
پر ہم بضد ہیں، ہم رکھیں گے جاری اونٹوں پر سفر
...'ہے گئی' مجہول ہے، 'پر' بمعنی "مگر" بھی قابلِ قبول نہیں، زمیں سے خلا میں اترنا بھی عجیب لگتا ہے
دوسرا مصرع بھی یوں بہتر ہو گا
ہم ہیں کہ لیکن ضد میں ہیں اونٹوں پہ ہو اپنا سفر
دنیا ترقی کر کے جا پہنچی ہے کب کی چاند پر
ہم ہیں کہ لیکن ضد میں ہیں اونٹوں پہ ہو اپنا سفر
یا
ہم ہیں کہ اونٹوں پر ہی کرنا چاہتے اپنا سفر
ایک سوال:
اصل مصرعہ دوم جو “حل ہو سکا ہم سے نہ اب تک مسئلۂ نور و بشر“ کرنے سے تو وزن کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے۔ کیا نور و بشر کو واوین میں کرنے سے یہ مصرعہ قابلِ قبول ہو سکتا ہے
حل ہو سکا ہم سے نہ اب تک مسئلہ“ نور و بشر“
مزدور کو ہے کر دیا مجبور ، کر لے خود کشی
یا
مزدور کر لے خود کشی مہنگائی سے تنگ آ کے، یوں
غربت مٹانے میں، نہیں چھوڑی حکومت نے کسر
.. پہلا مصرع اب بھی رواں نہیں
مہنگائی کی اتنی کہ سارے خود کشی کر لیں غریب
غربت مٹانے میں، نہیں چھوڑی حکومت نے کسر
قابض زمینوں پر ہوا ہے مافیا اس ملک میں
کوشش کرے جو واپسی کی وُہ کٹائے اپنا سر
.. دوسرا مصرع اب بھی مجہول ہے
قابض زمینوں پر ہوا ہے مافیا اس ملک میں
جو مانگ لے واپس تو اس کا وُہ اُڑا دیتے ہیں سر
لٹکا دیے جاتے ہیں پھانسی پر وُہ پاگل لوگ جو
حق بات پر دربار میں ہو جاتے ہیں سینہ سپر
.. ٹھیک ہے، مگر روانی کم ہے
پھانسی پہ وُہ لٹکا دیے جاتے ہیں پاگل لوگ جو
حق بات پر دربار میں ہو جاتے ہیں سینہ سپر

جن اشعار میں آپ نے متبادل تجویز کیے تھے۔ انہیں ویسے ہی تبدیل کر لیا ہے۔ بہت مہربانی
 

الف عین

لائبریرین
ہم ہیں کہ لیکن ضد میں ہیں اونٹوں پہ ہو اپنا سفر
.. یہ بہتر ہے، دوسرا متبادل 'ہیں' کی کمی کی وجہ سے قبول نہیں کیا جا سکتا
مسئلہ نور و بشر میں مسئلہ، نور اور بشر تین الفاظ کاعطف لگتا ہے، اور یہ تعلق بھی واضح نہیں۔ "مسئلہ، نور اور بشر" لکھا جائے اگر یہ بے معنی مطلب ہی نکالنا ہو۔ نور و بشر "کا" مسئلہ تو قطعی مطلب نہیں نکالا جا سکتا
دوسرے اشعار درست تو ہیں لیکن رواں نہیں لگتے اب بھی۔
 
Top