برائے اصلاح: خُدا کسی دن تو بھیڑیوں کے نقاب سارے اتار دے گا

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے

خُدا کسی دن تو بھیڑیوں کے نقاب سارے اتار دے گا
جو پی گئے میرا خون،ان پر عذاب سارے اتار دے گا

کبھی تو اتنا خدا کرے گا کہ میرے سر سے بُری بلائیں
یہ خان،سردار،چودھری اور نواب سارے اتار دے گا

نظر اُٹھاکے ہی کر دیا ہےگر ایک عالم کو جس نے مدہوش
تو کیا بنے گا وہ چاند جس دن حجاب سارے اتار دے گا

ہو جائے گا وُہ بھی بے خبر اپنے آپ سے یونہی میری مانند
جب اس کے اوپر بھی پیار کے کوئی خواب سارے اتار دے گا

زبان کھولی کبھی جو تم نے روایتوں کے خلاف مقبول
زمانہ ظالم تُمہارے تمغے، جناب، سارے اتار دے گا
 

الف عین

لائبریرین
یہ تم کو عجیب و غریب زمینیں چننے کا کیا شوق ہے بھئی!

خُدا کسی دن تو بھیڑیوں کے نقاب سارے اتار دے گا
جو پی گئے میرا خون،ان پر عذاب سارے اتار دے گا
.. مطلع بدلو، یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ خدا نے ہی بھیڑیوں کے نقاب پہن رکھے ہیں!

کبھی تو اتنا خدا کرے گا کہ میرے سر سے بُری بلائیں
یہ خان،سردار،چودھری اور نواب سارے اتار دے گا
... یہ شعر خواہ مخواہ کا ہے نواب قافیہ استعمال کرنے کے لئے، یہ سارے الفاظ اترنے/ اتارنے کا کوئی محاورہ نہیں ۔ زعمِ خانصاحبی زعم سرداری کو اتارنا درست ہو سکتا ہے!

نظر اُٹھاکے ہی کر دیا ہےگر ایک عالم کو جس نے مدہوش
تو کیا بنے گا وہ چاند جس دن حجاب سارے اتار دے گا
.. اٹھا کے کی جگہ اٹھا کر زیادہ رواں ہے، شعر ٹھیک لگ رہا ہے

ہو جائے گا وُہ بھی بے خبر اپنے آپ سے یونہی میری مانند
جب اس کے اوپر بھی پیار کے کوئی خواب سارے اتار دے گا
.. یہ کہہ چکا ہوں کہ 'ہُجا' کا تلفظ استعمال کرنا غلط ہے، مکمل ہو جا کرنا ضروری ہے
دوسرے مصرعے کا محاورہ سمجھ میں نہیں آیا

زبان کھولی کبھی جو تم نے روایتوں کے خلاف مقبول
زمانہ ظالم تُمہارے تمغے، جناب، سارے اتار دے گا
.. درست
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
بہت شُکریہ
سر، میری اتنی قابلیت نہیں ہے کہ کوئی بحر یا زمین چن کر کچھ لکھ سکوں۔ بس جو ذہین میں آتا ہے وہی لکھتا ہوں
خُدا کسی دن تو بھیڑیوں کے نقاب سارے اتار دے گا
جو پی گئے میرا خون،ان پر عذاب سارے اتار دے گا
.. مطلع بدلو، یہ مطلب بھی نکلتا ہے کہ خدا نے ہی بھیڑیوں کے نقاب پہن رکھے ہیں
یہ دیکھیے

خُدا کبھی ان کے خوش نما سے نقاب سارے اتار دے گا
جو کھا گئے میرا مُلک ، ان پر عذاب سارے اتار دے گا
کبھی تو اتنا خدا کرے گا کہ میرے سر سے بُری بلائیں
یہ خان،سردار،چودھری اور نواب سارے اتار دے گا
... یہ شعر خواہ مخواہ کا ہے نواب قافیہ استعمال کرنے کے لئے، یہ سارے الفاظ اترنے/ اتارنے کا کوئی محاورہ نہیں ۔ زعمِ خانصاحبی زعم سرداری کو اتارنا درست ہو سکتا ہے!

یہ الفاظ ( ۔۔۔۔۔ نواب) پہلے مصرع میں بری بلائیں کی نسبت سے استعمال کیے ہیں ۔ مجھے لگا کہ بلائیں سر سے اتاری جا سکتی ہیں

ہو جائے گا وُہ بھی بے خبر اپنے آپ سے یونہی میری مانند
جب اس کے اوپر بھی پیار کے کوئی خواب سارے اتار دے گا
.. یہ کہہ چکا ہوں کہ 'ہُجا' کا تلفظ استعمال کرنا غلط ہے، مکمل ہو جا کرنا ضروری ہے
دوسرے مصرعے کا محاورہ سمجھ میں نہیں آیا
اب دیکھیے

پھرے گا تب وُہ بھی بے خبر اپنے آپ سے یونہی میری مانند
کسی کو پانے کے ،جب خدا ،اس پہ خواب سارے اتار دے گا
 

الف عین

لائبریرین
جب ایک شعر خود بخود ہو جائے، جسے اترنا کہہ سکتے ہیں، تو پھر بقیہ اشعار کہہ کر غزل مکمل کرنے کو ہی کہا جائے گا کہ تم نے عجیب سی زمین چنی یے
نواب سردار وغیرہ بلائیں ہیں؟ ہاں، جیسے میں نے لکھا تھا کہ زعم سرداری ضرور بلا ہو سکتی ہے
مطلع چل سکتا ہے
مگر آخری شعر میں عجز بیان ہے
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
سر، بہت شُکریہ

آج کل تو مجھ جیسے عام لوگ بھی اپنے ساتھ یہ ٹائٹل لگائے پھرتے ہیں لیکن میرا اشارہ ان بڑے لوگوں کی طرف ہے جن کو علاقے میں ایک خاص حیثیت ہونے کی وجہ سے یہ ٹائٹل ملتے تھے یا ابھی تک ملتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں تو ان کی اکثریت نے اپنے آپ کو بلائیں ہی ثابت کیا ہے بلکہ اس فہرست میں کچھ نام نہاد پیر اور کچھ طالع آزما جرنیل بھی شامل ہیں
 
Top