مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب، دیگر اساتذہ کرام اور احباب
یہ غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے
دلِ برباد میں ماتم کا سماں رہتا ہے
ہر سمے سِلسلۂ آہ و فغاں رہتا ہے
وقت ہر زخم کا مرہم سہی پر زندگی بھر
عشق میں ہار کا احساسِ زیاں رہتا ہے
کون کیا کہتا ہے حالت پہ مری ، دُنیا میں
یا
عید آئی کہ نہیں، رُت بھی ہے بدلی کہ نہیں
پیار لُٹ جائے تو یہ ہوش کہاں رہتا ہے
میں بدلتا نہیں بستر پہ بھی پہلو کہ، ترے
بعد جانے کے بھی ہونے کا گماں رہتا ہے
یا
بند کرتا نہیں رکھتا ہوں کھلا دروازہ
تُو کبھی لوٹ نہ آئے یہ گماں رہتا ہے
جو کبھی لازم و ملزوم گنے جاتے تھے
اب نہیں جانتے وُہ، کون کہاں رہتا ہے
لے گیا اپنے وُہ تحفے تو یہ بھی لے جاتا
اس کے پاؤں کا مرے دل پہ نشاں رہتا ہے
لوگ جنت سے اسے دیتے ہیں تشبیہ سبھی
جس جگہ سانس وُہ لیتا ہے، جہاں رہتا ہے
عشق کی آگ نہیں ہے تو ہے پھر کیا مقبول
تیرے اندر سے کیوں اُٹھتا یہ دھواں رہتا ہے
یہ غزل اصلاح کے لیے پیشِ خدمت ہے
دلِ برباد میں ماتم کا سماں رہتا ہے
ہر سمے سِلسلۂ آہ و فغاں رہتا ہے
وقت ہر زخم کا مرہم سہی پر زندگی بھر
عشق میں ہار کا احساسِ زیاں رہتا ہے
کون کیا کہتا ہے حالت پہ مری ، دُنیا میں
یا
عید آئی کہ نہیں، رُت بھی ہے بدلی کہ نہیں
پیار لُٹ جائے تو یہ ہوش کہاں رہتا ہے
میں بدلتا نہیں بستر پہ بھی پہلو کہ، ترے
بعد جانے کے بھی ہونے کا گماں رہتا ہے
یا
بند کرتا نہیں رکھتا ہوں کھلا دروازہ
تُو کبھی لوٹ نہ آئے یہ گماں رہتا ہے
جو کبھی لازم و ملزوم گنے جاتے تھے
اب نہیں جانتے وُہ، کون کہاں رہتا ہے
لے گیا اپنے وُہ تحفے تو یہ بھی لے جاتا
اس کے پاؤں کا مرے دل پہ نشاں رہتا ہے
لوگ جنت سے اسے دیتے ہیں تشبیہ سبھی
جس جگہ سانس وُہ لیتا ہے، جہاں رہتا ہے
عشق کی آگ نہیں ہے تو ہے پھر کیا مقبول
تیرے اندر سے کیوں اُٹھتا یہ دھواں رہتا ہے
آخری تدوین: