اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب !
براہِ مہربانی اس غزل کی اصلاح فرما دیں _
غزل
تمہارا کام میری وجہ سے مشکل نہ بن جائے
مِرے دل کی طرح یعنی تمہارا دل نہ بن جائے
بِٹھایا جا رہا ہے منصَبِ منصف پہ مجرم کو
عجب کیا ہے کہ اب مقتول ہی قاتل نہ بن جائے
سمندر پی چکا ہوں پھر بھی میری پیاس باقی ہے
یہ سن کر کوئی دریا کیوں بھلا ساحل نہ بن جائے
سفر سے عشق ہے مجھ کو ، سفر میں رہنے دے مجھ کو
کوئی منزل ، مِرے مولا ! مِری منزل نہ بن جائے
محبت کر تو لوں لیکن ، مجھے اس بات کا ڈر ہے
کہیں دردِ محبت بڑھتے بڑھتے دل نہ بن جائے
خلافت مل نہیں سکتی تجھے اے ابنِ آدم ! سن
کہ جب تک تو خلیفہ ہونے کے قابل نہ بن جائے
یا
کہ جب تک تو سراپا مومنِ کامل نہ بن جائے
جو لذت ڈھونڈتا ہے اس جہاں میں باغِ رضواں کی
ذرا کہہ دو اسے یہ سعی لا حاصل نہ بن جائے
یا
یہ اس کی سعی اک دن سعیِ لا حاصل نہ بن جائے
محبت میں جنوں ہے ، دوستی میں ہے سکونِ دل
دعا کیجے ، وہ مہ پارہ ، مہِ کامل نہ بن جائے
اسے اس ڈر نے روکا ہے ، مِرے پاس آنے سے شاید
تماشا میرا اور اس کا ، سرِ محفل نہ بن جائے
شبِ مہتاب ہے ، مت آئیے چھت پر خدارا آج
کہیں سارا زمانہ آپ کا بسمل نہ بن جائے
یہ دنیا تجھ پہ ہو نازاں ، کچھ ایسا کام کر ناداں
فقط کھانا کمانا زیست کا حاصل نہ بن جائے
تو کیا اس ڈر سے غالبؔ سہل کہنے لگ گیا اشرف ؟
کہ وہ مشکل پسندی کے سبب بیدؔل نہ بن جائے
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
محترم محمد خلیل الرحمٰن صاحب
آداب !
براہِ مہربانی اس غزل کی اصلاح فرما دیں _
غزل
تمہارا کام میری وجہ سے مشکل نہ بن جائے
مِرے دل کی طرح یعنی تمہارا دل نہ بن جائے
بِٹھایا جا رہا ہے منصَبِ منصف پہ مجرم کو
عجب کیا ہے کہ اب مقتول ہی قاتل نہ بن جائے
سمندر پی چکا ہوں پھر بھی میری پیاس باقی ہے
یہ سن کر کوئی دریا کیوں بھلا ساحل نہ بن جائے
سفر سے عشق ہے مجھ کو ، سفر میں رہنے دے مجھ کو
کوئی منزل ، مِرے مولا ! مِری منزل نہ بن جائے
محبت کر تو لوں لیکن ، مجھے اس بات کا ڈر ہے
کہیں دردِ محبت بڑھتے بڑھتے دل نہ بن جائے
خلافت مل نہیں سکتی تجھے اے ابنِ آدم ! سن
کہ جب تک تو خلیفہ ہونے کے قابل نہ بن جائے
یا
کہ جب تک تو سراپا مومنِ کامل نہ بن جائے
جو لذت ڈھونڈتا ہے اس جہاں میں باغِ رضواں کی
ذرا کہہ دو اسے یہ سعی لا حاصل نہ بن جائے
یا
یہ اس کی سعی اک دن سعیِ لا حاصل نہ بن جائے
محبت میں جنوں ہے ، دوستی میں ہے سکونِ دل
دعا کیجے ، وہ مہ پارہ ، مہِ کامل نہ بن جائے
اسے اس ڈر نے روکا ہے ، مِرے پاس آنے سے شاید
تماشا میرا اور اس کا ، سرِ محفل نہ بن جائے
شبِ مہتاب ہے ، مت آئیے چھت پر خدارا آج
کہیں سارا زمانہ آپ کا بسمل نہ بن جائے
یہ دنیا تجھ پہ ہو نازاں ، کچھ ایسا کام کر ناداں
فقط کھانا کمانا زیست کا حاصل نہ بن جائے
تو کیا اس ڈر سے غالبؔ سہل کہنے لگ گیا اشرف ؟
کہ وہ مشکل پسندی کے سبب بیدؔل نہ بن جائے