برائے اصلاح: دو غزلہ ۲

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے
اس دو غزلہ میں غزلوں کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں

غزل ۱

جھکا کر جو کھڑے ہوں سر تو کیا دستار کی باتیں
جو ہوں سوراخ کشتی میں تو کیا پتوار کی باتیں

وہ”پہلے آپ” ہیں گذرے ہوئے اقدار کی باتیں
“میں پہلے “ ہو گئی ہیں اب نئے اطوار کی باتیں

ہوئے انسان بھی وقتی نئے سامان کی مانند
نہیں کرتا کوئی اس دور میں معیار کی باتیں

وہ کر دیں ملک کا سودا یا بیچیں قوم کو اپنی
نہیں میں جان سکتا کچھ کہ ہیں اسرار کی باتیں

ہیں ابنُ الوقت ہی ہوتے ہمیشہ بادشاہ کے گرد
سبق آموز ہوتی ہیں بہت دربار کی باتیں

کسی کا ساتھ دینا ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
نہیں گفتار کی ہرگز ، یہ ہیں کردار کی باتیں

وہ جن کا قرض دینا ہو، وہ جن سےاورلینا ہو
تجھے کیا زیب دیتی ہیں انہیں للکار کی باتیں

کسی بھی پار کیا اترو گے جو کرتے رہو گے تم
کبھی اِس پار کی باتیں کبھی اُس پار کی باتیں

میں ہجرت کر چکا مقبول پھر بھی یاد آتی ہیں
بزرگوں کی دُکھی قبریں ، در و دیوار کی باتیں

غزل ۲

سنائے ہجر کے قصّے، کرے وہ پیار کی باتیں
تجھے اچھی نہیں لگتیں ترے بیمار کی باتیں

میں جب بھی دیکھ لوں ٹی وی، پڑھوں اخبار کی باتیں
لگے پھیلی ہوئی ہر سو ہیں میرے یار کی باتیں

اسی ہی گفتگو میں زندگی تمام کر ڈالی
مرے اظہار کی باتیں ترے انکار کی باتیں

نہیں جو ہاں کہا تم نے تو حسرت رہ گئی میری
کبھی میں کر سکوں تجھ سے ترے اقرار کی باتیں

علاوہ اس کے کیا رکھا ہے سب اشعار میں میرے
ترے سنگھار کی باتیں لب و رخسار کی باتیں

معطر ہونے لگتی ہیں ہوائیں ذکر سے تیرے
کہیں میں جیسے کرتا ہوں ترے دیدار کی باتیں

مری ہے آپ بیتی میں تمہارا تذکرہ جتنا
وہی ہیں کام کی، باقی ہیں سب بیکار کی باتیں

کوئی تو پھول جھڑتا ہے کوئی ہے رولتا موتی
مری تو زندگی ہی ہیں مری سرکار کی باتیں

فقط میں ہی نہیں مقبول اس کی زلف کا عاشق
زمانہ کر رہا ہے کاکلِ خمدار کی باتیں
 

الف عین

لائبریرین
جھکا کر جو کھڑے ہوں سر تو کیا دستار کی باتیں
جو ہوں سوراخ کشتی میں تو کیا پتوار کی باتیں
... سو لختی، عجز بیان

وہ”پہلے آپ” ہیں گذرے ہوئے اقدار کی باتیں
“میں پہلے “ ہو گئی ہیں اب نئے اطوار کی باتیں
.. درست

ہوئے انسان بھی وقتی نئے سامان کی مانند
نہیں کرتا کوئی اس دور میں معیار کی باتیں
... درست

وہ کر دیں ملک کا سودا یا بیچیں قوم کو اپنی
نہیں میں جان سکتا کچھ کہ ہیں اسرار کی باتیں
... یہ بھی عجز بیان لگتا ہے، 'یا بیچیں' کی جگہ 'کہ بیچیں' کہو

ہیں ابنُ الوقت ہی ہوتے ہمیشہ بادشاہ کے گرد
سبق آموز ہوتی ہیں بہت دربار کی باتیں
... بے ربط لگتا ہے یہ بھی

کسی کا ساتھ دینا ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
نہیں گفتار کی ہرگز ، یہ ہیں کردار کی باتیں
... ایضاً

وہ جن کا قرض دینا ہو، وہ جن سےاورلینا ہو
تجھے کیا زیب دیتی ہیں انہیں للکار کی باتیں
... ایضاً

کسی بھی پار کیا اترو گے جو کرتے رہو گے تم
کبھی اِس پار کی باتیں کبھی اُس پار کی باتیں
.. درست

میں ہجرت کر چکا مقبول پھر بھی یاد آتی ہیں
بزرگوں کی دُکھی قبریں ، در و دیوار کی باتیں..
... دوسرا مصرع روانی چاہتا ہے

غزل ۲

سنائے ہجر کے قصّے، کرے وہ پیار کی باتیں
تجھے اچھی نہیں لگتیں ترے بیمار کی باتیں
.. پہلے مصرع میں 'وہ' شروع میں ہو تو واضح ہوتا ہے شعر، ورنہ سنائے کا فاعل سمجھنے میں مشکل ہوتی ہے ۔ دو لخت بھی محسوس ہوتا ہے

میں جب بھی دیکھ لوں ٹی وی، پڑھوں اخبار کی باتیں
لگے پھیلی ہوئی ہر سو ہیں میرے یار کی باتیں
.. ٹی وی پر محض خبریں تو نہیں آتیں.! دوسرا مصرع بھی' لگے' کی وجہ سے رواں نہیں لگ رہا

اسی ہی گفتگو میں زندگی تمام کر ڈالی
مرے اظہار کی باتیں ترے انکار کی باتیں
... تمام سے بحر سے خارج ہو جاتا ہے پہلا مصرع

نہیں جو ہاں کہا تم نے تو حسرت رہ گئی میری
کبھی میں کر سکوں تجھ سے ترے اقرار کی باتیں
.. شرر گربہ

علاوہ اس کے کیا رکھا ہے سب اشعار میں میرے
ترے سنگھار کی باتیں لب و رخسار کی باتیں
... ٹھیک، 'سب اشعار' کھٹکتا ہے البتہ۔ الفاظ بدل کر دیکھو

معطر ہونے لگتی ہیں ہوائیں ذکر سے تیرے
کہیں میں جیسے کرتا ہوں ترے دیدار کی باتیں
.. ٹھیک

مری ہے آپ بیتی میں تمہارا تذکرہ جتنا
وہی ہیں کام کی، باقی ہیں سب بیکار کی باتیں
.. 'ہے میری آپ بیتی' بہتر ہو گا

کوئی تو پھول جھڑتا ہے کوئی ہے رولتا موتی
مری تو زندگی ہی ہیں مری سرکار کی باتیں
... واضح نہیں ہوا

فقط میں ہی نہیں مقبول اس کی زلف کا عاشق
زمانہ کر رہا ہے کاکلِ خمدار کی باتیں
.. درست
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
سر، اصلاح کے لیے بہت شُکریہ
غزل ۲ کی درستگی کی کوشش کی ہے۔

بدل تو بات دیتا ہے کرے جب پیار کی باتیں
تجھے اچھی نہیں لگتیں ترے بیمار کی باتیں

میں ہوں خوش بخت جوایسی فضامیں سانس لیتاہوں
جہاں پھیلی ہوئی ہر سو ہیں میرے یار کی باتیں

اسی ہی گفتگو میں زندگی کی شام ہو جائے
مرے اظہار کی باتیں ترے انکار کی باتیں

نہیں جو “ہاں “ کہا تُو نے تو حسرت رہ گئی میری
کبھی میں کر سکوں تجھ سے ترے اقرار کی باتیں

علاوہ اس کے کیا لکھتا ہوں میں اشعار میں اپنے
ترے سنگھار کی باتیں لب و رخسار کی باتیں

معطر ہونے لگتی ہیں ہوائیں ذکر سے تیرے
کہیں میں جیسے کرتا ہوں ترے دیدار کی باتیں

ہے میری آپ بیتی میں تمہارا تذکرہ جتنا
وہی ہیں کام کی، باقی ہیں سب بیکار کی باتیں

سمجھتے لوگ ہیں ایسا وہ باتیں سخت کرتا ہے
مجھے تو پھول لگتی ہیں مری سرکار کی باتیں

فقط میں ہی نہیں مقبول اس کی زلف کا عاشق
زمانہ کر رہا ہے کاکلِ خمدار کی باتیں
 
آخری تدوین:

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

غزل ۱ درستگی کے بعد پیش کر رہا ہوں

کٹی ہو جب غلامی میں تو کیا احرار کی باتیں
جھکا کر جب کھڑے ہوں سر تو کیا دستار کی باتیں

وہ”پہلے آپ” ہیں گذرے ہوئے اقدار کی باتیں
“میں پہلے “ ہو گئی ہیں اب نئے اطوار کی باتیں

مرے ہی گھر کے بھیدی نے تو لنکا ڈھائی ہے میری
یا
ہمارے گھر کو لوٹا ہے ہمارے گھر کے لوگوں نے
جو ہوں سوراخ کشتی میں تو کیا پتوار کی باتیں

ہوئے انسان بھی وقتی نئے سامان کی مانند
نہیں کرتا کوئی اس دور میں معیار کی باتیں

وہ کر دیں مُلک کا سودا کہ بیچیں قوم کو اپنی
چھپا کر رکھتے ہیں ہم سے کہ ہیں اسرار کی باتیں
یا
یہی تو ہیں جنہیں کہتے ہیں وہ اسرار کی باتیں

یہاں قانون نابینا یہاں منصف ہیں ظالم لوگ
یہاں پر کون سُنتا ہے کسی نادار کی باتیں

پہنچے تخت پر ہیں بیٹے کر کے باپ کو قیدی
بہت ہیں دُکھ بھری مولا ترے سنسار کی باتیں

کسی بھی پار کیا اترو گے، جو کرتے رہو گے تم
کبھی اِس پار کی باتیں کبھی اُس پار کی باتیں

میں ہجرت کر چکا مقبول پھر بھی یاد آتی ہیں
دکھی شکلیں بزرگوں کی، در و دیوار کی باتیں
 

الف عین

لائبریرین
بدل تو بات دیتا ہے کرے جب پیار کی باتیں
تجھے اچھی نہیں لگتیں ترے بیمار کی باتیں
.. مطلع اب بھی مجہول سا ہے۔ عدم روانی کا شکار 'کرے' کے باعث۔ اسے بدل ہی دو

میں ہوں خوش بخت جوایسی فضامیں سانس لیتاہوں
جہاں پھیلی ہوئی ہر سو ہیں میرے یار کی باتیں
... درست

اسی ہی گفتگو میں زندگی کی شام ہو جائے
مرے اظہار کی باتیں ترے انکار کی باتیں
.. 'بس اتنی' بہتر ہو گا، 'اسی ہء' اچھا نہیں

نہیں جو “ہاں “ کہا تُو نے تو حسرت رہ گئی میری
کبھی میں کر سکوں تجھ سے ترے اقرار کی باتیں
.. پہلا مصرع اب بھی گنجلک ہے، بدلو اسے

علاوہ اس کے کیا لکھتا ہوں میں اشعار میں اپنے
ترے سنگھار کی باتیں لب و رخسار کی باتیں
... ٹھیک

معطر ہونے لگتی ہیں ہوائیں ذکر سے تیرے
کہیں میں جیسے کرتا ہوں ترے دیدار کی باتیں
... 'جیسے' درست محاورہ نہیں، 'جب بھی' شاید درست

ہے میری آپ بیتی میں تمہارا تذکرہ جتنا
وہی ہیں کام کی، باقی ہیں سب بیکار کی باتیں
... ٹھیک

سمجھتے لوگ ہیں ایسا وہ باتیں سخت کرتا ہے
مجھے تو پھول لگتی ہیں مری سرکار کی باتیں
.. یہ بھی عدم روانی کا شکار ہے

فقط میں ہی نہیں مقبول اس کی زلف کا عاشق
زمانہ کر رہا ہے کاکلِ خمدار کی باتیں
درست

یہ پوست کر رہا تھا کہ نیت کا مسئلہ ہو گیا تو اتھ گیا، پھر تھوڑی دیر بعد جب مسئلہ نہیں رہا تو پسٹ کر دیا، اور تب دیکھ رہا ہون کہ پورا جواب محفوظ نہیں ہوا تھا!
 

الف عین

لائبریرین
کٹی ہو جب غلامی میں تو کیا احرار کی باتیں
جھکا کر جب کھڑے ہوں سر تو کیا دستار کی باتیں
.... درست

وہ”پہلے آپ” ہیں گذرے ہوئے اقدار کی باتیں
“میں پہلے “ ہو گئی ہیں اب نئے اطوار کی باتیں

مرے ہی گھر کے بھیدی نے تو لنکا ڈھائی ہے میری
یا
ہمارے گھر کو لوٹا ہے ہمارے گھر کے لوگوں نے
جو ہوں سوراخ کشتی میں تو کیا پتوار کی باتیں

ہوئے انسان بھی وقتی نئے سامان کی مانند
نہیں کرتا کوئی اس دور میں معیار کی باتیں
... اوپر کے تمام درست، کشتی والے شعر میں دوسرا متبادل ہی بہتر ہے

وہ کر دیں مُلک کا سودا کہ بیچیں قوم کو اپنی
چھپا کر رکھتے ہیں ہم سے کہ ہیں اسرار کی باتیں
یا
یہی تو ہیں جنہیں کہتے ہیں وہ اسرار کی باتیں
.. اس شعر کو نکال ہی دیں، قافیہ جم نہیں رہا ہے

یہاں قانون نابینا یہاں منصف ہیں ظالم لوگ
یہاں پر کون سُنتا ہے کسی نادار کی باتیں

. درست

پہنچے تخت پر ہیں بیٹے کر کے باپ کو قیدی
بہت ہیں دُکھ بھری مولا ترے سنسار کی باتیں
.. پہلا بحر سے خارج ہے مصرع، کوئی خاص واقعے کی طرف اشارہ ہے کیا؟ ورنہ اسے بھی غزل باہر کر دیں

کسی بھی پار کیا اترو گے، جو کرتے رہو گے تم
کبھی اِس پار کی باتیں کبھی اُس پار کی باتیں
.. ٹھیک

میں ہجرت کر چکا مقبول پھر بھی یاد آتی ہیں
دکھی شکلیں بزرگوں کی، در و دیوار کی باتیں
... دوسرے مصرعے کو تبدیل کرو، 'وہ در و دیوار کی باتیں' لانا ضروری ہے جیسے
سُتےچہرے بڑوں کے، وہ در و دیوار..
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

سر، مجھے افسوس ہے کہ آپ کام محفوظ نہیں رہا اور آپ کو دوبارہ زحمت اٹھانا پڑی ۔ آپ کی دوبار کی گئی محنت کے لیے شکر گُذار ہوں۔

غزل ۲ کے باقی ماندہ اشعار کچھ درستگی کے بعد حاضر ہیں

بدل تُو بات دیتا ہے جو چھیڑے پیار کی باتیں
تجھے اچھی نہیں لگتیں ترے بیمار کی باتیں

ترے چہرے پہ دیکھوں گا کہ کیا کیا رنگ اترتے ہیں
اگر میں کر سکوں تجھ سے ترے اقرار کی باتیں

وہ لہجہ سخت رکھتا ہے اگرچہ ساتھ میرے بھی
مجھے تو پھول لگتی ہیں مرے دلدار کی باتیں

یہی باتیں ہماری زندگی کا کل اثاثہ ہیں
یا
ہماری گفتگو محدود ہے ان دو ہی باتوں تک
مرے اظہار کی باتیں ترے انکار کی باتیں

غزل ۱ کے دو اشعار آپ کے حکم کے مطابق نکال دیئے ہیں ۔ باقی اشعار سوائے مقطع کے درست ہو گئے تھے ۔ مقطع تبدیل کر دیا ہے ۔ تازہ مقطع پیشِ خدمت ہے

بدلنا سوچ کو ہو گا مجھے ہر حال میں مقبول
جہاں میں گونجتی ہیں اب نئے افکار کی باتیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
بدل تُو بات دیتا ہے جو چھیڑے پیار کی باتیں
تجھے اچھی نہیں لگتیں ترے بیمار کی باتیں
... بدل بات دیتا. کی بندش اچھی نہیں ہے، اس کے علاوہ چھیڑے کا فاعل کون ہے؟ کہ محبوب خود تو موضوع شروع کر کے بات بدل نہیں سکتا!

ترے چہرے پہ دیکھوں گا کہ کیا کیا رنگ اترتے ہیں
اگر میں کر سکوں تجھ سے ترے اقرار کی باتیں
... ٹھیک

وہ لہجہ سخت رکھتا ہے اگرچہ ساتھ میرے بھی
مجھے تو پھول لگتی ہیں مرے دلدار کی باتیں
.. میرے بھی... کا بھی زائد لگتا ہے
وہ میرے ساتھ اگرچہ اپنا لہجہ سخت رکھتا ہے
ایک تجویز

یہی باتیں ہماری زندگی کا کل اثاثہ ہیں
یا
ہماری گفتگو محدود ہے ان دو ہی باتوں تک
مرے اظہار کی باتیں ترے انکار کی باتیں
.. دوسرا متبادل بہتر ہے

غزل ۱ کے دو اشعار آپ کے حکم کے مطابق نکال دیئے ہیں ۔ باقی اشعار سوائے مقطع کے درست ہو گئے تھے ۔ مقطع تبدیل کر دیا ہے ۔ تازہ مقطع پیشِ خدمت ہے

بدلنا سوچ کو ہو گا مجھے ہر حال میں مقبول
جہاں میں گونجتی ہیں اب نئے افکار کی باتیں
.... پہلے مصرع کے الفاظ بدلو
بدل دوں میں بھی اپنی سوچ..... کے ساتھ کوشش کرو
 

مقبول

محفلین
بدل تُو بات دیتا ہے جو چھیڑے پیار کی باتیں
تجھے اچھی نہیں لگتیں ترے بیمار کی باتیں
... بدل بات دیتا. کی بندش اچھی نہیں ہے، اس کے علاوہ چھیڑے کا فاعل کون ہے؟ کہ محبوب خود تو موضوع شروع کر کے بات بدل نہیں سکتا!

ترے چہرے پہ دیکھوں گا کہ کیا کیا رنگ اترتے ہیں
اگر میں کر سکوں تجھ سے ترے اقرار کی باتیں
... ٹھیک

وہ لہجہ سخت رکھتا ہے اگرچہ ساتھ میرے بھی
مجھے تو پھول لگتی ہیں مرے دلدار کی باتیں
.. میرے بھی... کا بھی زائد لگتا ہے
وہ میرے ساتھ اگرچہ اپنا لہجہ سخت رکھتا ہے
ایک تجویز

یہی باتیں ہماری زندگی کا کل اثاثہ ہیں
یا
ہماری گفتگو محدود ہے ان دو ہی باتوں تک
مرے اظہار کی باتیں ترے انکار کی باتیں
.. دوسرا متبادل بہتر ہے

غزل ۱ کے دو اشعار آپ کے حکم کے مطابق نکال دیئے ہیں ۔ باقی اشعار سوائے مقطع کے درست ہو گئے تھے ۔ مقطع تبدیل کر دیا ہے ۔ تازہ مقطع پیشِ خدمت ہے

بدلنا سوچ کو ہو گا مجھے ہر حال میں مقبول
جہاں میں گونجتی ہیں اب نئے افکار کی باتیں
.... پہلے مصرع کے الفاظ بدلو
بدل دوں میں بھی اپنی سوچ..... کے ساتھ کوشش کرو

محترم الف عین صاحب

سر، شُکریہ

مطلع سمیت کچھ تبدیلیاں کی ہیں ۔ اب دیکھیے

تجھے کرنا نہیں آتیں ابھی اظہار کی باتیں
نہیں تُو بھولتا کہنا مگر انکار کی باتیں
یا
مجھے کہتا ہے کر سکتا نہیں تُو پیار کی باتیں
تو کیسے آ گئیں کرنا تجھے انکار کی باتیں
یا
مگر اچھے سے آتی ہیں تجھے انکار کی باتیں

میں جب بھی بات کرتا ہوں تُومجھ کوٹوک دیتاہے
تجھے اچھی نہیں لگتیں ترے بیمار کی باتیں

وہ میرے ساتھ گرچہ لہجہ اپنا سخت رکھتا ہے
یا
یہ لوگوں کو شکایت ہے وہ لہجہ سخت رکھتا ہے
مجھے پر پھول لگتی ہیں مرے دلدار کی باتیں
(یہاں تو کی جگہ پر کر دیا ہے کیونکہ تو میں و نہیں گر رہا تھا لیکن کہنے میں شاید تو ہی بہتر محسوس ہو رہا تھا مجھے)

یہی مقبول بہترہےبدل دوں میں بھی اپنی سوچ
جہاں میں گونجتی ہیں اب نئے افکار کی باتیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مجھے کہتا ہے کر سکتا نہیں تُو پیار کی باتیں
تو کیسے آ گئیں کرنا تجھے انکار کی باتیں
بہتر ہے
بیمار والا شعر درست ہو گیا

وہ میرے ساتھ گرچہ لہجہ اپنا سخت رکھتا ہے
اگرچہ بھی یہیں آ سکتا ہے، الف کا تھ سے وصال ہونا درست ہے ۔ میری تجویز شاید 'اپنا لہجہ' کی تھی۔ لہجہ اپنا میں عربی لفظ لہجہ کی ہ کا اسقاط ہوتا ہے جب کہ اپنا پہلے کانےسے اپنا، ہندی لفظ، کے الف جا اسقاط بالکل درست ہے۔ اس لیے 'اپنا لہجہ' بہتر ہے

مقطع درست ہو گیا ہے
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

سر، بہت مہربانی ۔
میں نے غلطی سے لہجہ اور اپنا کی جگیں تبدیل لر دی تھیں ۔ چلیں اس بہانے آپ سے کچھ اور سیکھ لیا۔

گرچہ کو اگرچہ کر دوں گا

اب سب درست ہو گیا ہے ۔ آپ کی رہنمائی کا بہت شُکریہ
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

سر، یہ جوڑا اچانک نازل ہو گیا ہے:smile-big:۔ سوُچا آپ کو دِکھا لوں

توجہ دے تُو اے مسلم کبھی تو حال پر اپنے
نہ ماضی یاد کر کے رو ، نہ کر آزار کی باتیں

تمہاری زندگی اب ہو گئی ہے ساغر و مینا
تمہیں جچتی نہیں اب گھوڑے اور تلوار کی باتیں
 
آخری تدوین:
Top