مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے
اس دو غزلہ میں غزلوں کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں
غزل ۱
جھکا کر جو کھڑے ہوں سر تو کیا دستار کی باتیں
جو ہوں سوراخ کشتی میں تو کیا پتوار کی باتیں
وہ”پہلے آپ” ہیں گذرے ہوئے اقدار کی باتیں
“میں پہلے “ ہو گئی ہیں اب نئے اطوار کی باتیں
ہوئے انسان بھی وقتی نئے سامان کی مانند
نہیں کرتا کوئی اس دور میں معیار کی باتیں
وہ کر دیں ملک کا سودا یا بیچیں قوم کو اپنی
نہیں میں جان سکتا کچھ کہ ہیں اسرار کی باتیں
ہیں ابنُ الوقت ہی ہوتے ہمیشہ بادشاہ کے گرد
سبق آموز ہوتی ہیں بہت دربار کی باتیں
کسی کا ساتھ دینا ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
نہیں گفتار کی ہرگز ، یہ ہیں کردار کی باتیں
وہ جن کا قرض دینا ہو، وہ جن سےاورلینا ہو
تجھے کیا زیب دیتی ہیں انہیں للکار کی باتیں
کسی بھی پار کیا اترو گے جو کرتے رہو گے تم
کبھی اِس پار کی باتیں کبھی اُس پار کی باتیں
میں ہجرت کر چکا مقبول پھر بھی یاد آتی ہیں
بزرگوں کی دُکھی قبریں ، در و دیوار کی باتیں
غزل ۲
سنائے ہجر کے قصّے، کرے وہ پیار کی باتیں
تجھے اچھی نہیں لگتیں ترے بیمار کی باتیں
میں جب بھی دیکھ لوں ٹی وی، پڑھوں اخبار کی باتیں
لگے پھیلی ہوئی ہر سو ہیں میرے یار کی باتیں
اسی ہی گفتگو میں زندگی تمام کر ڈالی
مرے اظہار کی باتیں ترے انکار کی باتیں
نہیں جو ہاں کہا تم نے تو حسرت رہ گئی میری
کبھی میں کر سکوں تجھ سے ترے اقرار کی باتیں
علاوہ اس کے کیا رکھا ہے سب اشعار میں میرے
ترے سنگھار کی باتیں لب و رخسار کی باتیں
معطر ہونے لگتی ہیں ہوائیں ذکر سے تیرے
کہیں میں جیسے کرتا ہوں ترے دیدار کی باتیں
مری ہے آپ بیتی میں تمہارا تذکرہ جتنا
وہی ہیں کام کی، باقی ہیں سب بیکار کی باتیں
کوئی تو پھول جھڑتا ہے کوئی ہے رولتا موتی
مری تو زندگی ہی ہیں مری سرکار کی باتیں
فقط میں ہی نہیں مقبول اس کی زلف کا عاشق
زمانہ کر رہا ہے کاکلِ خمدار کی باتیں
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست ہے
اس دو غزلہ میں غزلوں کی طوالت پر معذرت خواہ ہوں
غزل ۱
جھکا کر جو کھڑے ہوں سر تو کیا دستار کی باتیں
جو ہوں سوراخ کشتی میں تو کیا پتوار کی باتیں
وہ”پہلے آپ” ہیں گذرے ہوئے اقدار کی باتیں
“میں پہلے “ ہو گئی ہیں اب نئے اطوار کی باتیں
ہوئے انسان بھی وقتی نئے سامان کی مانند
نہیں کرتا کوئی اس دور میں معیار کی باتیں
وہ کر دیں ملک کا سودا یا بیچیں قوم کو اپنی
نہیں میں جان سکتا کچھ کہ ہیں اسرار کی باتیں
ہیں ابنُ الوقت ہی ہوتے ہمیشہ بادشاہ کے گرد
سبق آموز ہوتی ہیں بہت دربار کی باتیں
کسی کا ساتھ دینا ہو، کوئی وعدہ نبھانا ہو
نہیں گفتار کی ہرگز ، یہ ہیں کردار کی باتیں
وہ جن کا قرض دینا ہو، وہ جن سےاورلینا ہو
تجھے کیا زیب دیتی ہیں انہیں للکار کی باتیں
کسی بھی پار کیا اترو گے جو کرتے رہو گے تم
کبھی اِس پار کی باتیں کبھی اُس پار کی باتیں
میں ہجرت کر چکا مقبول پھر بھی یاد آتی ہیں
بزرگوں کی دُکھی قبریں ، در و دیوار کی باتیں
غزل ۲
سنائے ہجر کے قصّے، کرے وہ پیار کی باتیں
تجھے اچھی نہیں لگتیں ترے بیمار کی باتیں
میں جب بھی دیکھ لوں ٹی وی، پڑھوں اخبار کی باتیں
لگے پھیلی ہوئی ہر سو ہیں میرے یار کی باتیں
اسی ہی گفتگو میں زندگی تمام کر ڈالی
مرے اظہار کی باتیں ترے انکار کی باتیں
نہیں جو ہاں کہا تم نے تو حسرت رہ گئی میری
کبھی میں کر سکوں تجھ سے ترے اقرار کی باتیں
علاوہ اس کے کیا رکھا ہے سب اشعار میں میرے
ترے سنگھار کی باتیں لب و رخسار کی باتیں
معطر ہونے لگتی ہیں ہوائیں ذکر سے تیرے
کہیں میں جیسے کرتا ہوں ترے دیدار کی باتیں
مری ہے آپ بیتی میں تمہارا تذکرہ جتنا
وہی ہیں کام کی، باقی ہیں سب بیکار کی باتیں
کوئی تو پھول جھڑتا ہے کوئی ہے رولتا موتی
مری تو زندگی ہی ہیں مری سرکار کی باتیں
فقط میں ہی نہیں مقبول اس کی زلف کا عاشق
زمانہ کر رہا ہے کاکلِ خمدار کی باتیں