یاسر علی
محفلین
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
کبھی پھولوں کبھی کانٹوں پہ سلا دیتی ہے
زندگی روز سبق مجھ کو نیا دیتی ہے
بام پر ایک نیا چاند ابھر آتا ہے
جب کبھی زلف وہ ماتھے سے ہٹا دیتی ہے
مجھ کو میخانے میں جانے کی ضرورت ہی نہیں
وہ مجھے جام نگاہوں سے پلا دیتی ہے
آ مرے ساتھ کہیں دور تجھے لے جاؤں
ریل گاڑی، یہ مجھے روز صدا دیتی ہے
میرے رونے کا اثر کچھ نہیں ہوتا لیکن!
خامشی تیری بہت حشر اٹھا دیتی ہے
وہ مجھے فون پہ کہتی ہے ،ملوں گی کل میں
وہ مگر روز یہی بات بھلا دیتی ہے
تو جہاں بھی رہے مخفی نہیں ہوتا ہم سے
تیری خوشبو ترے ہونے کا پتا دیتی ہے
مسکراہٹ شبِ سرخاب میں تیری میثم
خون کے آنسو بہت ہم کو رلا دیتی ہے
یاسر علی میثم
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:
کبھی پھولوں کبھی کانٹوں پہ سلا دیتی ہے
زندگی روز سبق مجھ کو نیا دیتی ہے
بام پر ایک نیا چاند ابھر آتا ہے
جب کبھی زلف وہ ماتھے سے ہٹا دیتی ہے
مجھ کو میخانے میں جانے کی ضرورت ہی نہیں
وہ مجھے جام نگاہوں سے پلا دیتی ہے
آ مرے ساتھ کہیں دور تجھے لے جاؤں
ریل گاڑی، یہ مجھے روز صدا دیتی ہے
میرے رونے کا اثر کچھ نہیں ہوتا لیکن!
خامشی تیری بہت حشر اٹھا دیتی ہے
وہ مجھے فون پہ کہتی ہے ،ملوں گی کل میں
وہ مگر روز یہی بات بھلا دیتی ہے
تو جہاں بھی رہے مخفی نہیں ہوتا ہم سے
تیری خوشبو ترے ہونے کا پتا دیتی ہے
مسکراہٹ شبِ سرخاب میں تیری میثم
خون کے آنسو بہت ہم کو رلا دیتی ہے
یاسر علی میثم