برائے اصلاح :زندگی روز سبق مجھ کو نیا دیتی ہے

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمد خلیل الرحمٰن
محمّد احسن سمیع :راحل:


کبھی پھولوں کبھی کانٹوں پہ سلا دیتی ہے
زندگی روز سبق مجھ کو نیا دیتی ہے

بام پر ایک نیا چاند ابھر آتا ہے
جب کبھی زلف وہ ماتھے سے ہٹا دیتی ہے

مجھ کو میخانے میں جانے کی ضرورت ہی نہیں
وہ مجھے جام نگاہوں سے پلا دیتی ہے

آ مرے ساتھ کہیں دور تجھے لے جاؤں
ریل گاڑی، یہ مجھے روز صدا دیتی ہے

میرے رونے کا اثر کچھ نہیں ہوتا لیکن!
خامشی تیری بہت حشر اٹھا دیتی ہے

وہ مجھے فون پہ کہتی ہے ،ملوں گی کل میں
وہ مگر روز یہی بات بھلا دیتی ہے

تو جہاں بھی رہے مخفی نہیں ہوتا ہم سے
تیری خوشبو ترے ہونے کا پتا دیتی ہے

مسکراہٹ شبِ سرخاب میں تیری میثم
خون کے آنسو بہت ہم کو رلا دیتی ہے

یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
باقی غزل تو درست لگ رہی ہے مگر
تو جہاں بھی رہے مخفی نہیں ہوتا ہم سے
تیری خوشبو ترے ہونے کا پتا دیتی ہے
... شاید مخفی نہیں رہتا بہتر ہو

مسکراہٹ شبِ سرخاب میں تیری میثم
خون کے آنسو بہت ہم کو رلا دیتی ہے
.. شب سرخاب کیوں؟ سمجھ میں نہیں آیا
 

یاسر علی

محفلین
باقی غزل تو درست لگ رہی ہے مگر
تو جہاں بھی رہے مخفی نہیں ہوتا ہم سے
تیری خوشبو ترے ہونے کا پتا دیتی ہے
... شاید مخفی نہیں رہتا بہتر ہو

مسکراہٹ شبِ سرخاب میں تیری میثم
خون کے آنسو بہت ہم کو رلا دیتی ہے
.. شب سرخاب کیوں؟ سمجھ میں نہیں آیا

شبِ سرخاب
سرخاب کا جوڑا رات کو تنہا رہتا ہے۔یعنی جدائی کی رات ۔
اگر یہ نہیں اچھا تو۔
'شبِ ظلمات' یا' شبِ تاریک'
کیا یہ درست رہے گا۔۔
 
Top