مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی گذارش ہے
سب ناگزیر تھے جو پڑے ہیں مزار میں
کس چیز کا غرور ہے مشتِ غُبار میں
اے موت معذرت کہ تُجھے مل سکا نہ میں
مصروف زندگی کے تھا میں کاروبار میں
میں اپنے سب کیے کا سزا وار ہوں مگر
اک سانس بھی نہیں ہے مرے اختیار میں
خم بھی تری کمر کا ہے تلوار کی طرح
ہے کا ٹ بھی وُہی تری کجلے کی دھار میں
اک ہوک سی اُٹھی ہے مرے پہلو سے ابھی
شاید تڑپ رہا ہے کوئی انتظار میں
ملتا ہے ہرکسی کو تُو،لیکن مرے لیے
اک لمحہ بھی نہیں ترے لیل و نہار میں
لینے دےکھُل کے سانس مجھے آخری تو اب
اے زندگی میں کب سے ہوں تیرے حصار میں
جو دل میں میرے پیار سے تم نے لگائے ہیں
کیا کھل اٹھیں گے زخم وُہ اب کے بہار میں
تارے میں آسمان سے لاؤں گا توڑ کر
ایسے ہی میں نے کہہ دیا ہو گا خمار میں
لگتا نہیں کہ یار کے دیدار ہوں نصیب
پھر بھی لگا ہوا ہوں میں لمبی قطار میں
وُہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہی رہ گئے
جو بیٹھتے تھے درس میں پہلی قطار میں
مقبول کیسے گذرے گی یہ رات ہجر کی
مقبول کیسے آئیں گے تارے شمار میں
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی گذارش ہے
سب ناگزیر تھے جو پڑے ہیں مزار میں
کس چیز کا غرور ہے مشتِ غُبار میں
اے موت معذرت کہ تُجھے مل سکا نہ میں
مصروف زندگی کے تھا میں کاروبار میں
میں اپنے سب کیے کا سزا وار ہوں مگر
اک سانس بھی نہیں ہے مرے اختیار میں
خم بھی تری کمر کا ہے تلوار کی طرح
ہے کا ٹ بھی وُہی تری کجلے کی دھار میں
اک ہوک سی اُٹھی ہے مرے پہلو سے ابھی
شاید تڑپ رہا ہے کوئی انتظار میں
ملتا ہے ہرکسی کو تُو،لیکن مرے لیے
اک لمحہ بھی نہیں ترے لیل و نہار میں
لینے دےکھُل کے سانس مجھے آخری تو اب
اے زندگی میں کب سے ہوں تیرے حصار میں
جو دل میں میرے پیار سے تم نے لگائے ہیں
کیا کھل اٹھیں گے زخم وُہ اب کے بہار میں
تارے میں آسمان سے لاؤں گا توڑ کر
ایسے ہی میں نے کہہ دیا ہو گا خمار میں
لگتا نہیں کہ یار کے دیدار ہوں نصیب
پھر بھی لگا ہوا ہوں میں لمبی قطار میں
وُہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہی رہ گئے
جو بیٹھتے تھے درس میں پہلی قطار میں
مقبول کیسے گذرے گی یہ رات ہجر کی
مقبول کیسے آئیں گے تارے شمار میں
آخری تدوین: