برائے اصلاح: سویا نہیں گیا

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی التماس ہے

کہہ کے تو الوداع اسے سویا نہیں گیا
پھر اور کسی خیال میں کھویا نہیں گیا

اُس کے روانہ ہونے پہ مَیں ٹوٹ تو گیا
مجھ سے مگر بے ساختہ رویا نہیں گیا

لب پر بھی میرا نام گوارا نہ تھا اُسے
موتی نہیں تھا، اس سے پرویا نہیں گیا

صرف اس وجہ سے میرا نہیں خط ہوا قبول
کیوں خون میں لفافہ ڈبویا نہیں گیا

تھا یوں تو اس کی آنکھ میں سارے جہاں کا عکس
میں خانماں خراب سمویا نہیں گیا

اُس خوش نُما وجود پہ افسوس عمر بھر
اک داغ بے وفا کا تھا دھویا نہیں گیا

مقبول، گرچہ شہر مرا چھوڑ چُکا ہے
دل میں رُکا ہوا ہے وُہ گویا نہیں گیا
 
کہہ کے تو الوداع اسے سویا نہیں گیا
پھر اور کسی خیال میں کھویا نہیں گیا
شعر میں فاعل کا تذکرہ نہیں، کہ کس سے سویا اور کھویا نہیں گیا۔
پہلے مصرعے کا وزن بھی ناقص ہے کہ الوداع کی ع ادا نہیں ہو رہی۔
مزید یہ کہ پہلے مصرعے میں ’’کے‘‘ کو آپ نے دوحرفی باندھا ہے جو غیرضروری ہے، یہاں کے کی جگہ کر کہیں تو زیادہ مناسب رہے گا ۔۔۔ تاہم آگے چل کر ’’تو‘‘ بھرتی کا ہے، صرف وزن پورا کر رہا ہے۔

اُس کے روانہ ہونے پہ مَیں ٹوٹ تو گیا
مجھ سے مگر بے ساختہ رویا نہیں گیا
ایک تو تقابل ردیفین کا مسئلہ ہے، پہلا مصرعہ بھی ردیف پر ختم ہو رہا ہے۔ علاوہ ازیں شعر کے سیاق کے حساب سے یہاں روانہ کے بجائے رخصت کہنا فصاحت کے موافق ہوگا۔
دوسرے مصرعے میں بے ساختہ کی ے کا اسقاط درست نہیں، اور ے ساقط کیے بغیر وزن پورا نہیں ہوتا۔

لب پر بھی میرا نام گوارا نہ تھا اُسے
موتی نہیں تھا، اس سے پرویا نہیں گیا
شعر دولخت لگ رہا ہے، خصوصا دوسرا مصرع تشنہ الفاظ معلوم ہوتا ہے۔

صرف اس وجہ سے میرا نہیں خط ہوا قبول
کیوں خون میں لفافہ ڈبویا نہیں گیا
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے۔ وجہ کا درست تلفظ نہیں کیا گیا۔ وجہ کی ج ساکن ہوتی ہے۔ تعقیدِ لفظی بھی ہے۔

تھا یوں تو اس کی آنکھ میں سارے جہاں کا عکس
میں خانماں خراب سمویا نہیں گیا
دوسرے مصرعے میں مجھے ’’بس‘‘ یا ’’اک‘‘ جیسے الفاظ سے تخصیص کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، اس کے بغیر مافی الضمیر کا کامل ابلاغ ممکن نہیں لگتا۔

اُس خوش نُما وجود پہ افسوس عمر بھر
اک داغ بے وفا کا تھا دھویا نہیں گیا
اس شعر میں بھی مفہوم کا ابلاغ نہیں ہو پایا، خصوصا جب فاعل کا تذکرہ بھی نہیں۔

مقبول، گرچہ شہر مرا چھوڑ چُکا ہے
دل میں رُکا ہوا ہے وُہ گویا نہیں گیا
دوسرے مصرعے میں اب بھی یا اب تک جیسے الفاظ کی کمی محسوس نہیں ہوتی؟

دعاگو،
راحلؔ
 

الف عین

لائبریرین
آخری شعر کا پہلا مصرع بحر سے خارج ہو گیا ہے
مطلع میں اُر بجائے اور اچھا نہیں لگ رہا ہے
یہ دو نکات مزید میری طرف سے
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
Sir, thank you very much for your two
invaluable cents

محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
میں آپ کے تفصیلی مشوروں کے لیے بہت شکر گُذار ہوں

یہ غزل میں نے ستمبر ۲۰۱۹ میں ابتدائی طور پر لکھی اور طاق پر رکھ دی۔ کبھی کبھار دیکھ لیتا تھا - مجھے اس کے کافی سقم معلوم تھے لیکن کبھی اسے بہتر کرنے کی طرف مائل نہیں ہو سکا ۔ کل میں اسے ایک بار پھر دیکھ رہا تھا تو سوچا کہ میں بھی ایک ڈنڈے سے چلنی والی قوم کا فرد ہوں تو کیوں نہ اس غزل کو اصلاح کے لیے پیش کروں اور ہو سکتا ہے کہ اساتذہ کے تبصرے کی وجہ سے کوئی تحریک مل جائے ۔ محسوس ہوتا ہے کہ کچھ آفاقہ ہوا ہے۔ آخر عزت بھی کوئی چیز ہوتی ہے:)

آپ دونوں اساتذہ کرام کے تبصرے کو سامنے رکھتے ہوئے کچھ بہتری لانے کی کوشش کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیے


مجھ سے تری جدائی میں سویا نہیں گیا
تحفہ ترا یہ درد کا کھویا نہیں گیا

میں ٹوٹ تو گیا تھا تری رخصتی کے وقت
عزت کا تیری پاس تھا رویا نہیں گیا

لب پر بھی میرا نام گوارا نہ تھا اُسے
میں موتیوں کے ساتھ پرویا نہیں گیا

اس نے مرا یہ کہہ کے نہیں خط کیا قبول
کیوں خون میں لفافہ بھگویا نہیں گیا

تھا یوں تو تیری آنکھ میں سارے جہاں کا عکس
اک میں ہی بد نصیب سمویا نہیں گیا

انکار کر کے زخم جو اس نے مجھے دیا
اقرار سے بھی اس کے وُہ دھویا نہیں گیا

تیرے مِلن کی آس مجھے لے گئی تھی پار
ورنہ مجھے کہاں پہ ڈبویا نہیں گیا

مقبول، گرچہ شہر سے وُہ جا چُکا مرے
دل میں ابھی بھی رہتا ہے گویا نہیں گیا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مجھ سے تری جدائی میں سویا نہیں گیا
تحفہ ترا یہ درد کا کھویا نہیں گیا
.. دو لختی اب بھی محسوس ہوتی ہے

میں ٹوٹ تو گیا تھا تری رخصتی کے وقت
عزت کا تیری پاس تھا رویا نہیں گیا
... رخصتی شادی کے بعد کی رسم کے لئے مخصوص ہے، لیکن رخصت کسی بھی موقع کی جدائی ہو سکتی ہے۔ شعر ویسے درست ہے

لب پر بھی میرا نام گوارا نہ تھا اُسے
میں موتیوں کے ساتھ پرویا نہیں گیا
.. لب سے موتی پروئے جاتے ہیں؟

اس نے مرا یہ کہہ کے نہیں خط کیا قبول
کیوں خون میں لفافہ بھگویا نہیں گیا
.. مرا اور خط کے درمیان طویل فاصلہ ہو گیا، ترتیب یا الفاظ بدلو

تھا یوں تو تیری آنکھ میں سارے جہاں کا عکس
اک میں ہی بد نصیب سمویا نہیں گیا
.. ٹھیک

انکار کر کے زخم جو اس نے مجھے دیا
اقرار سے بھی اس کے وُہ دھویا نہیں گیا
... پہلے مصرع میں 'تھا' لا سکو تو بہتر ہے

تیرے مِلن کی آس مجھے لے گئی تھی پار
ورنہ مجھے کہاں پہ ڈبویا نہیں گیا
.. واضح نہیں. یار یہاں بھی بھرتی کا ہے

مقبول، گرچہ شہر سے وُہ جا چُکا مرے
دل میں ابھی بھی رہتا ہے گویا نہیں گیا
.. رہتا کے الف کا اسقاط اچھا نہیں
رہتا ہے دل میں اب بھی وہ، گویا...
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب

مجھ سے تری جدائی میں سویا نہیں گیا
تحفہ ترا یہ درد کا کھویا نہیں گیا
.. دو لختی اب بھی محسوس ہوتی ہے
مطلع بدل دیا ہے
حیثیتوں کا سوچ کے سویا نہیں گیا
پھرمجھ سے تیرے خواب میں کھویا نہیں گیا
میں ٹوٹ تو گیا تھا تری رخصتی کے وقت
عزت کا تیری پاس تھا رویا نہیں گیا
... رخصتی شادی کے بعد کی رسم کے لئے مخصوص ہے، لیکن رخصت کسی بھی موقع کی جدائی ہو سکتی ہے۔ شعر ویسے درست ہے
سر، میرے ذہن میں شادی کے بعد کی ہی رخصتی تھی
لب پر بھی میرا نام گوارا نہ تھا اُسے
میں موتیوں کے ساتھ پرویا نہیں گیا
.. لب سے موتی پروئے جاتے ہیں
سر، لغت میں موتی پرونا کے معنی ( خوش کلامی کرنا ، خوش بیانی کرنا ، خوش سلیقگی سے گفتگو کرنا ؛ ناز و ادا سے پیاری پیاری باتیں کرنا) بھی لکھا ہوا ہے۔ اب دیکھیے

لینا بھی میرا نام گوارا نہ تھا اُسے
یا
کرتا نہیں تھا ذکر میرا شاعری میں وُہ
میں موتیوں کے ساتھ پرویا نہیں گیا

س نے مرا یہ کہہ کے نہیں خط کیا قبول
کیوں خون میں لفافہ بھگویا نہیں گیا
.. مرا اور خط کے درمیان طویل فاصلہ ہو گیا، ترتیب یا الفاظ بدلو
یہ کہہ کے اس نے میرا نہیں خط کیا قبول
کیوں خون میں لفافہ بھگویا نہیں گیا
انکار کر کے زخم جو اس نے مجھے دیا
اقرار سے بھی اس کے وُہ دھویا نہیں گیا
... پہلے مصرع میں 'تھا' لا سکو تو بہتر ہے
انکار کا جو زخم دیا اس نے تھا مجھے
اقرار سے بھی اس کے وُہ دھویا نہیں گیا
تیرے مِلن کی آس مجھے لے گئی تھی پار
ورنہ مجھے کہاں پہ ڈبویا نہیں گیا
.. واضح نہیں. یار یہاں بھی بھرتی کا ہے
سر، یار تو مصرعہ میں نہیں تھا۔ آپ شاید پار کہنا چاہتے ہوں گے
پہلا مصرعہ بدل دیا ہے

نکلا ہوں پار دریا کی موجوں سے لڑ کے میں
ورنہ مجھے کہاں پہ ڈبویا نہیں گیا
 

الف عین

لائبریرین
پار کو یار سمجھنا میری غلطی تھی، لیکن شعر تب بھی واضح نہیں، کون ڈبونا چاہتا تھا؟
ایک 'انگوٹھا چھاپ' اصول یاد رکھو کہ شعر کی روانی نثر سے قریب ترین ہونے میں ہے۔ اب تم ہی کہو کہ 'جو مجھے دیا تھا' کو 'دیا جو تھا مجھے، تھا مجھے جو دیا، تھا مجھے دیا جو وغیرہ وغیرہ میں کیا قابل قبول ہے۔ اسی طرھ
میرا نہیں خط کیا قبول
بجائے میرا خط قبول نہیں کیا
قبول کیا جا سکتا ہے؟
 

مقبول

محفلین
پار کو یار سمجھنا میری غلطی تھی، لیکن شعر تب بھی واضح نہیں، کون ڈبونا چاہتا تھا؟
ایک 'انگوٹھا چھاپ' اصول یاد رکھو کہ شعر کی روانی نثر سے قریب ترین ہونے میں ہے۔ اب تم ہی کہو کہ 'جو مجھے دیا تھا' کو 'دیا جو تھا مجھے، تھا مجھے جو دیا، تھا مجھے دیا جو وغیرہ وغیرہ میں کیا قابل قبول ہے۔ اسی طرھ
میرا نہیں خط کیا قبول
بجائے میرا خط قبول نہیں کیا
قبول کیا جا سکتا ہے؟
محترم الف عین صاحب
سر، بہت شُکریہ

اب یکھیے

یہ کہہ کےاس نے پھاڑ دیا خط مرا وہیں
کیوں خون میں لفافہ بھگویا نہیں گیا

اس نے مجھے دیا تھا جو انکار کر کے زخم
اقرار سے بھی اس کے وُہ دھویا نہیں گیا
 

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین صاحب
سر، بہت شُکریہ

اب یکھیے

یہ کہہ کےاس نے پھاڑ دیا خط مرا وہیں
کیوں خون میں لفافہ بھگویا نہیں گیا

اس نے مجھے دیا تھا جو انکار کر کے زخم
اقرار سے بھی اس کے وُہ دھویا نہیں گیا
ہاں اب درست ہیں یہ اشعار
 
Top