زبیر صدیقی
محفلین
السلام علیکم - ایک تازہ غزل کے ساتھ آپ کو تکلیف دے رہا ہوں۔ برائے مہربانی ایک نگاہ ہو۔ (اس غزل کا محرک ذرا سا سیاسی ہے، مجھے معلوم نہیں کہ اجازت ہے کہ نہیں، اس لیے نہیں دیا)
الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل
گریزاں روشنی سے ہو، عجب ہے
سحر ہو گی تو سمجھو گے کہ شب ہے
کھڑے اور زمیں جھٹلا رہے ہو
یقیناً بد گمانی ہی سبب ہے
کیے جاتے ہو رد ہر ایک شے کو
تمہیں کیا صرف تنہائی طلب ہے
غمِ ماضی کا ماتم حال پر کیوں
اگر لکھنا ہے مستقبل تو اب ہے
تری آواز اور میری خموشی
مہذب گفتگو کا یہ بھی ڈھب ہے
تم اپنا شور دہراتے ہو خود ہی
مرا نغمہ طلب ہر ایک لب ہے
بسانا بستیاں ہیں رفتہ رفتہ
تقاضا اب تماشا گاہ کب ہے
نفی پہ عقل ٹھہرا دی ہے تم نے
دھڑکتے دل پہ یہ کیسا غضب ہے۔
والسلام
الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی
الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی محمد احسن سمیع راحل
گریزاں روشنی سے ہو، عجب ہے
سحر ہو گی تو سمجھو گے کہ شب ہے
کھڑے اور زمیں جھٹلا رہے ہو
یقیناً بد گمانی ہی سبب ہے
کیے جاتے ہو رد ہر ایک شے کو
تمہیں کیا صرف تنہائی طلب ہے
غمِ ماضی کا ماتم حال پر کیوں
اگر لکھنا ہے مستقبل تو اب ہے
تری آواز اور میری خموشی
مہذب گفتگو کا یہ بھی ڈھب ہے
تم اپنا شور دہراتے ہو خود ہی
مرا نغمہ طلب ہر ایک لب ہے
بسانا بستیاں ہیں رفتہ رفتہ
تقاضا اب تماشا گاہ کب ہے
نفی پہ عقل ٹھہرا دی ہے تم نے
دھڑکتے دل پہ یہ کیسا غضب ہے۔
والسلام
الف عین محمد خلیل الرحمٰن سید عاطف علی
آخری تدوین: