مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی گذارش کے ساتھ یہ غزل پیش کر رہا ہوں ۔ نکالے جانے کے قابل اشعار کی نشاندہی بھی فرمائیے
عشق کی گھات ابھی باقی ہے
دُکھ کی سوغات ابھی باقی ہے
ظلم کی رات گذر جائے بھی
ہجر کی رات ابھی باقی ہے
کھو چکا سب میں تری فرقت میں
دلِ بد ذات ابھی باقی ہے
اب تک آنکھوں سے بہے ہیں آنسو
خوں کی برسات ابھی باقی ہے
کیسے بھر سکتی ہے جھولی میری
اس کی خیرات ابھی باقی ہے
آزماتا ہے مجھے روز خُدا
کیا کوئی مات ابھی باقی ہے
یا
میں کسی ہار سے گھبرایا نہیں
پیار میں مات ابھی باقی ہے
روح پرواز کرے کیسے مری
یا
کاش جی بھر کے اسے دیکھ سکوں
اک ملاقات ابھی باقی ہے
تم نے تعریف سنی ہے اپنی
میری تو بات ابھی باقی ہے
اس کے پردے پہ ہی جاں جانے لگی
آنا بارات ابھی باقی ہے
سانس لینے سے مرے ہے ثابت
رب کی بھی ذات ابھی باقی ہے
کچھ گئی عمر گذر ہے مقبول
کچھ سِیَہ رات ابھی باقی ہے
عشق کی گھات ابھی باقی ہے
دُکھ کی سوغات ابھی باقی ہے
ظلم کی رات گذر جائے بھی
ہجر کی رات ابھی باقی ہے
کھو چکا سب میں تری فرقت میں
دلِ بد ذات ابھی باقی ہے
اب تک آنکھوں سے بہے ہیں آنسو
خوں کی برسات ابھی باقی ہے
کیسے بھر سکتی ہے جھولی میری
اس کی خیرات ابھی باقی ہے
آزماتا ہے مجھے روز خُدا
کیا کوئی مات ابھی باقی ہے
یا
میں کسی ہار سے گھبرایا نہیں
پیار میں مات ابھی باقی ہے
روح پرواز کرے کیسے مری
یا
کاش جی بھر کے اسے دیکھ سکوں
اک ملاقات ابھی باقی ہے
تم نے تعریف سنی ہے اپنی
میری تو بات ابھی باقی ہے
اس کے پردے پہ ہی جاں جانے لگی
آنا بارات ابھی باقی ہے
سانس لینے سے مرے ہے ثابت
رب کی بھی ذات ابھی باقی ہے
کچھ گئی عمر گذر ہے مقبول
کچھ سِیَہ رات ابھی باقی ہے