عینی خیال
محفلین
فاصلے ہمیشہ سے قربتوں کے قاتل ہیں
فاصلوں نے ہر باری قربتوں کو روندا ہے
بے یقینی کا منظر دل کو گھیرے رہتا ہے
آس کے سبھی بندھن ٹوٹ کر بکھیرتے ہیں
دل کے نرم گوشوں میں بے بسی یہ بھرتے ہیں
غم کے گہرے دریا میں اشک کے ہرے پتھر
دکھ کی تیز لہروں سے اپنا سر پٹختے ہیں
بے سبب الجھتے ہیں
راستے نہیں ملتے،منزلیں نہیں ملتیں
یاد گدگداتی ہے،ہر گھڑی رلاتی ہے
موسموں کی نیت کچھ اس طرح بدلتی ہے
راس ہی نہیں آتیں دل کو یہ بہاریں پھر
کچھ کمی سی رہتی ہے عمر بھر ہمیشہ پھر
فاصلوں سے کہہ دو نا،
اسطرح سے راہوں میں تاک نہ لگائے پھر
پھر نہ راستہ بدلیں چاہتوں کے دریا کا
پھر سبب نہ بن جائیں یہ کسی جدائی کا
فاصلوں سے کہہ دو نا
اب کی بار رخ بد لیں،پھر نہ لوٹ کر آیئں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاصلوں نے ہر باری قربتوں کو روندا ہے
بے یقینی کا منظر دل کو گھیرے رہتا ہے
آس کے سبھی بندھن ٹوٹ کر بکھیرتے ہیں
دل کے نرم گوشوں میں بے بسی یہ بھرتے ہیں
غم کے گہرے دریا میں اشک کے ہرے پتھر
دکھ کی تیز لہروں سے اپنا سر پٹختے ہیں
بے سبب الجھتے ہیں
راستے نہیں ملتے،منزلیں نہیں ملتیں
یاد گدگداتی ہے،ہر گھڑی رلاتی ہے
موسموں کی نیت کچھ اس طرح بدلتی ہے
راس ہی نہیں آتیں دل کو یہ بہاریں پھر
کچھ کمی سی رہتی ہے عمر بھر ہمیشہ پھر
فاصلوں سے کہہ دو نا،
اسطرح سے راہوں میں تاک نہ لگائے پھر
پھر نہ راستہ بدلیں چاہتوں کے دریا کا
پھر سبب نہ بن جائیں یہ کسی جدائی کا
فاصلوں سے کہہ دو نا
اب کی بار رخ بد لیں،پھر نہ لوٹ کر آیئں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔