برائے اصلاح: فیصلہ میرے یار نے کتنا عجیب کر دیا

مقبول

محفلین
قابلِ احترام
الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل: صاحبان
اور دیگر اساتذہ کرام

فیصلہ میرے یار نے کتنا عجیب کر دیا
شہر سے ہی نکال کر مجھ کو غریب کر دیا

اچھے دنوں جسے نہ تھا میرا سلام بھی روا
ضرب نے وقت کی اُسے میرے قریب کر دیا

وصل کی ایک گفتگو، ہجر کے ایک نامہ نے
عام سے ایک شخص کو شاعر،ادیب کر دیا

اگرچہ عیسیٰ میں نہیں تھا پھربھی دنیا نے مجھے
فقہ کے اختلاف پر نذرِ صلیب کر دیا

حُسن نے وُہ دکھائیں مقبول کرشمہ سازیاں
جو تھے عزیز باہمی ان کو رقیب کر دیا​
 

الف عین

لائبریرین
فیصلہ میرے یار نے کتنا عجیب کر دیا
شہر سے ہی نکال کر مجھ کو غریب کر دیا
.... شہر کی جگہ وطن کا محل ہے، پھر سے کہو مصرع

اچھے دنوں جسے نہ تھا میرا سلام بھی روا
ضرب نے وقت کی اُسے میرے قریب کر دیا
... اچھے دنوں یا اچھے دنوں میں؟ ورنہ محاورہ درست نہیں

وصل کی ایک گفتگو، ہجر کے ایک نامہ نے
عام سے ایک شخص کو شاعر،ادیب کر دیا
... گفتگو کے بعد بھی 'نے' ہونا تھا، ہجر کا نامہ کیا ہوتا ہے؟

اگرچہ عیسیٰ میں نہیں تھا پھربھی دنیا نے مجھے
فقہ کے اختلاف پر نذرِ صلیب کر دیا
.. پہلا مصرع بحر سے خارج ہے

حُسن نے وُہ دکھائیں مقبول کرشمہ سازیاں
جو تھے عزیز باہمی ان کو رقیب کر دیا
. یہ خیال رکھو کہ جو بحر دو حصوں میں منقسم ہو رہی ہو، اس کے ہر حصے میں جملہ، فقرہ یا لفظ خود تقسیم نہ ہو۔
حسن نے وہ دکھائیں مق....... بول الخ
ہو رہا ہے یہاں
 

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب

میں آپ سے بہت سیکھ رہا ہوں ۔ شُکریہ

کچھ درستکی، کچھ وضاحت اور مزید رہنمائی کی درخواست کے ساتھ پیش کرتا ہوں

فیصلہ میرے یار نے کتنا عجیب کر دیا
شہر سے ہی نکال کر مجھ کو غریب کر دیا
.... شہر کی جگہ وطن کا محل ہے، پھر سے کہو مصرع

فیصلہ میرے یار نے کتنا عجیب کر دیا
مجھ کو نکال کر وطن سے ہی غریب کر دیا
یا
چھڑوا دیا مرا وطن مجھ کو غریب کر دیا
یا
کر کے وطن سے بے وطن مجھ کو غریب کر دیا

اچھے دنوں جسے نہ تھا میرا سلام بھی روا
ضرب نے وقت کی اُسے میرے قریب کر دیا
... اچھے دنوں یا اچھے دنوں میں؟ ورنہ محاورہ درست نہیں

اچھے دنوں میں شخص جو لیتا نہ تھا مرا سلام
ضرب کی وقت نے اسے میرے قریب کر دیا

وصل کی ایک گفتگو، ہجر کے ایک نامہ نے
عام سے ایک شخص کو شاعر،ادیب کر دیا
... گفتگو کے بعد بھی 'نے' ہونا تھا، ہجر کا نامہ کیا ہوتا ہے؟

چند گھڑی کے وصل اور ہجر کی ایک رات نے
عام سے ایک شخص کو شاعر، ادیب کر دیا

اگرچہ عیسیٰ میں نہیں تھا پھربھی دنیا نے مجھے
فقہ کے اختلاف پر نذرِ صلیب کر دیا
.. پہلا مصرع بحر سے خارج ہے

سر، اردو ویب پر جناب بسمل صاحب نے بحور کی جو فہرست مہیا کی ہے ، اس میں انہوں نے بحر رجز کے اوزان میں یہ تحریر فرمایا ہے
“مثمن مطوی، مطوی مخبون اور مخبون مطوی در اصل ایک ہی وزن ہے۔ مخبون اور مطوی کو ایک دوسرے کی جگہ لانے کی عروض میں اجازت ہے اس لیے یہ تینوں اوزان ایک نظم میں جمع کرنا بھی

میری غزل کے سب مصرعے مطوی مخبون کے وزن پر ہیں سوائے اس مصرعہ کے جسے آپ نے بحر سے خارج ہونے کا فرمایا ۔ یہ مصرع مخبون مطوی وزن پر ہے۔ میں نے خیال کیا کہ بسمل صاحب کی تحریر کے مطابق درست ہو گا

مزید رہنمائی آپ فرمائیے

حُسن نے وُہ دکھائیں مقبول کرشمہ سازیاں
جو تھے عزیز باہمی ان کو رقیب کر دیا
. یہ خیال رکھو کہ جو بحر دو حصوں میں منقسم ہو رہی ہو، اس کے ہر حصے میں جملہ، فقرہ یا لفظ خود تقسیم نہ ہو۔
حسن نے وہ دکھائیں مق....... بول الخ
ہو رہا ہے یہاں

جی میں سمجھ گیا ہوں۔ اپنا نام ڈالنے کی واحد جگہ یہی میسّر تھی۔ نام شاید نکالنا ہو گا
اس مصرع کو درست کرنے کے لیے آپ سے رہنمائی کی درخواست ہے

نوازش ہو گی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
کر کے وطن سے بے وطن مجھ کو غریب کر دیا
بہتر ہے
اچھے دنوں میں شخص جو لیتا نہ تھا مرا سلام
.. روانی مخدوش ہے
یوں کہو
اچھے دنوں میں جو مرا لیتا نہ تھا سلام بھی

چند گھڑی کے وصل اور ہجر کی ایک رات نے
.. یوں بہتر ہو گا
چند گھڑی کے وصل نے، ہجر کی ایک رات نے

.. یہ مخبوط تو میرے حواس ہی مخبوط کر دیتا ہے، شاید ظہیراحمدظہیر کچھ کہہ سکیں

مقبول تخلص تو اس بحر میں فٹ نہیں ہوتا، اس کے بغیر ہی کہو، یا نام کا دوسرا حصہ عارضی تخلص بنا دو
 
میں نے خیال کیا کہ بسمل صاحب کی تحریر کے مطابق درست ہو گا
اس کی کوئی سند میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ عروضی اصول آپ کو کتابوں میں سو طرح کے ملیں گے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کو زیرِ کار بھی لایا جا سکتا ہے.
 

مقبول

محفلین
کر کے وطن سے بے وطن مجھ کو غریب کر دیا
بہتر ہے
اچھے دنوں میں شخص جو لیتا نہ تھا مرا سلام
.. روانی مخدوش ہے
یوں کہو
اچھے دنوں میں جو مرا لیتا نہ تھا سلام بھی

چند گھڑی کے وصل اور ہجر کی ایک رات نے
.. یوں بہتر ہو گا
چند گھڑی کے وصل نے، ہجر کی ایک رات نے

.. یہ مخبوط تو میرے حواس ہی مخبوط کر دیتا ہے، شاید ظہیراحمدظہیر کچھ کہہ سکیں

مقبول تخلص تو اس بحر میں فٹ نہیں ہوتا، اس کے بغیر ہی کہو، یا نام کا دوسرا حصہ عارضی تخلص بنا دو

محترم الف عین صاحب

پہلے تین اشعار تو درست ہو گئے آخری دو اشعار کے لیے اس کوشش پر نظر فرمائیے


دیں کا عَلَم اٹھائے اک جمِ غفیر نے مجھے
فقہ کے اختلاف پر نذرِ صلیب کر دیا

چھو کے تمہاری زلف کو جس بھی طرف گئی ہوا
یا
دیکھی ہیں اس کے حسن کی وُہ وُہ کرشمہ سازیاں
جو تھے عزیز باہمی ان کو رقیب کر دیا
 

الف عین

لائبریرین
دوسرا شعر 'دیکھی ہیں..' . کے ساتھ شعر درست ہو گیا، لیکن پہلا شعر پہلا مصرع ایک کے ساتھ نہ صرف درست بلکہ زیادہ رواں ہے، یعنی
دیں کا عَلَم اٹھائے ایک..
 

مقبول

محفلین
دوسرا شعر 'دیکھی ہیں..' . کے ساتھ شعر درست ہو گیا، لیکن پہلا شعر پہلا مصرع ایک کے ساتھ نہ صرف درست بلکہ زیادہ رواں ہے، یعنی
دیں کا عَلَم اٹھائے ایک..

محترم الف عین صاحب

سر، بہت مہربانی اس غزل کی درستگی کے لیے

ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں

میں بھی “اک” کی جگہ “ایک” کہنا چاہتا تھا لیکن اس کے لیے ایک اختیاری ہجائے کوتاہ کا اضافہ چاہیئے تھا جس پر میں کم پڑھ ہونے کی وجہ سے متزلزل ہو گیا اور “اک” ہی رہنے دیا۔ آپ کے ارشاد پر اسے “ایک” کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ اختیاری ہجائے کوتاہ مصرعہ کے آخر کے علاوہ مصرعہ میں کہاں کہاں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

براہِ مہربانی اس پرُروشنی ڈالیے ۔ بہت شکریہ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین صاحب

سر، بہت مہربانی اس غزل کی درستگی کے لیے

ایک سوال پوچھنا چاہتا ہوں

میں بھی “اک” کی جگہ “ایک” کہنا چاہتا تھا لیکن اس کے لیے ایک اختیاری ہجائے کوتاہ کا اضافہ چاہیئے تھا جس پر میں کم پڑھ ہونے کی وجہ سے متزلزل ہو گیا اور “اک” ہی رہنے دیا۔ آپ کے ارشاد پر اسے “ایک” کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ یہ اختیاری ہجائے کوتاہ مصرعہ کے آخر کے علاوہ مصرعہ میں کہاں کہاں استعمال کرنے کی اجازت ہے۔

براہِ مہربانی اس پرُروشنی ڈالیے ۔ بہت شکریہ
میرے خیال میں صرف مصرع کے آخر میں فعلن کو فعلان، مفاعلن کو مفاعلن کیا جا سکتا ہے
کیونکہ یہ بحر منقسم نوعیت کی ہے، یعنی مستفعلن مفاعلن دو بار ہے، اس لئے ہر حصے کو مکمل مصرع مانا جا سکتا ہے اور ہر ٹکڑے کے آخری حصے میں 'علن' کو 'علان' کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہر جگہ کرتے پھریں یا یہ کہ کسی بھی رکن میں ایک حرف کا اضافہ کر دیں جیسے مفاعلن کو مفاعلتن یا فعلن کو فاعلن بنا دیا جائے
 

مقبول

محفلین
میرے خیال میں صرف مصرع کے آخر میں فعلن کو فعلان، مفاعلن کو مفاعلن کیا جا سکتا ہے
کیونکہ یہ بحر منقسم نوعیت کی ہے، یعنی مستفعلن مفاعلن دو بار ہے، اس لئے ہر حصے کو مکمل مصرع مانا جا سکتا ہے اور ہر ٹکڑے کے آخری حصے میں 'علن' کو 'علان' کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہر جگہ کرتے پھریں یا یہ کہ کسی بھی رکن میں ایک حرف کا اضافہ کر دیں جیسے مفاعلن کو مفاعلتن یا فعلن کو فاعلن بنا دیا جائے
بہت شُکریہ ، سر
 

نور وجدان

لائبریرین
میرے خیال میں صرف مصرع کے آخر میں فعلن کو فعلان، مفاعلن کو مفاعلن کیا جا سکتا ہے
کیونکہ یہ بحر منقسم نوعیت کی ہے، یعنی مستفعلن مفاعلن دو بار ہے، اس لئے ہر حصے کو مکمل مصرع مانا جا سکتا ہے اور ہر ٹکڑے کے آخری حصے میں 'علن' کو 'علان' کیا جا سکتا ہے۔ یہ نہیں کہ ہر جگہ کرتے پھریں یا یہ کہ کسی بھی رکن میں ایک حرف کا اضافہ کر دیں جیسے مفاعلن کو مفاعلتن یا فعلن کو فاعلن بنا دیا جائے
ایک سوال مزید

مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن

مفتعلن مفاعلان مفتعلن مفاعلن. اس طرح کیا جا سکتا ہے؟
 
ایک سوال مزید

مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن

مفتعلن مفاعلان مفتعلن مفاعلن. اس طرح کیا جا سکتا ہے؟
جی، یہ بحرِ مقطع ہے اس میں اذالہ درمیان میں بھی واقع ہو سکتا ہے۔ دونوں یا کسی ایک مفاعلن کو مفاعلان کرنا جائز ہے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دیں کا عَلَم اٹھائے اک جمِ غفیر نے مجھے
فقہ کے اختلاف پر نذرِ صلیب کر دیا
سر، اردو ویب پر جناب بسمل صاحب نے بحور کی جو فہرست مہیا کی ہے ، اس میں انہوں نے بحر رجز کے اوزان میں یہ تحریر فرمایا ہے
“مثمن مطوی، مطوی مخبون اور مخبون مطوی در اصل ایک ہی وزن ہے۔ مخبون اور مطوی کو ایک دوسرے کی جگہ لانے کی عروض میں اجازت ہے اس لیے یہ تینوں اوزان ایک نظم میں جمع کرنا بھی
میری غزل کے سب مصرعے مطوی مخبون کے وزن پر ہیں سوائے اس مصرعہ کے جسے آپ نے بحر سے خارج ہونے کا فرمایا ۔ یہ مصرع مخبون مطوی وزن پر ہے۔ میں نے خیال کیا کہ بسمل صاحب کی تحریر کے مطابق درست ہو گا
مزید رہنمائی آپ فرمائیے
.. یہ مخبوط تو میرے حواس ہی مخبوط کر دیتا ہے، شاید ظہیراحمدظہیر کچھ کہہ سکیں
اس کی کوئی سند میں نے آج تک نہیں دیکھی۔ عروضی اصول آپ کو کتابوں میں سو طرح کے ملیں گے، اس کا یہ مطلب نہیں کہ سب کو زیرِ کار بھی لایا جا سکتا ہے.
ریحان کی بات سے متفق ہوں کہ اس بحر میں مخبون (یعنی مفاعلن) اور مطوی (یعنی مفتعلن) کو ایک ہی نظم میں حسبِ خواہش باہم تبدیل کرنے کی کوئی مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی ۔ رجز مثمن مطوی مخبون (یعنی مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن) میں تو بے شمار کلام ملتا ہے ، غالب کی کئی مشہور غزلیں اس وزن میں ہیں ۔ لیکن رجز مخبون مطوی ( یعنی مفاعلن مفتعلن مفاعلن مفتعلن) میں کوئی کلام نظر نہیں آتا ۔ مولوی عبدالغنی رامپوری نے بھی بحرالفصاحت میں اسی قسم کا تبصرہ کیا ہے اور اس کی مثال میں فقط ایک شعر لکھا ہے:
جو اٹھ گیا رشکِ پری دکھا مجھے اپنی ادا ۔۔۔ تو کیا کہوں میرے وہیں حواس سے جاتے رہے
جس اصول کا ذکر مقبول صاحب نے بحوالہ بسمل صاحب اوپر کیا ہے وہ یاس یگانہ چنگیزی نے اپنی کتاب چراغِ سخن میں لکھا ہے اور کہا ہے کہ مفاعلن کو مفتعلن سے بدلا جاسکتا ہے اور ان اوزان کو ایک نظم میں جمع کرنا جائز ہے ۔ لیکن انہوں نے بھی یہ اصول صرف نقل کردیا ہے اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی ۔

جیسا کہ ریحان نے کہا کہ بہت سارے اصول عروضی کتابوں میں مل تو جاتے ہیں لیکن ان کے استعمال کی کوئی مثال شعر سےنہیں ملتی ۔ اس کی وجہ میرے نزدیک یہی ہے کہ مروجہ علمِ عروض اردو میں عربی سے براستہ فارسی درآمد ہوا ہے ۔ مثال کے طور پر اردو کی کثیرالاستعمال اور مقبول بحر رمل سالم مخبون محذوف ( فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن) کے لئے بھی اکثر کتب عروض میں لکھا ملے گا کہ یہاں حشوین میں سے کسی ایک پر تسکینِ اوسط کے استعمال سے فعلاتن کو مفعولن میں بدلا جاسکتا ہے ۔ لیکن اس کی کوئی ایک مثال بھی شاید اردو شاعر میں نہیں ملے گی حالانکہ یہ اردو میں سب سے زیادہ مستعمل بحر ہے ۔ ( اگر کوئی شاعر تسکینِ اوسط کا استعمال کرے تو میری رائے میں اس خوبصورت بحر کی روانی کو متاثر کرے گا ۔)
اسی طرح رجز مثمن مطوی مخبون (یعنی زیرِ بحث غزل کی بحر) بھی ایک رواں اور خوبصورت بحر ہے اور اس میں مفاعلن اور مفتعلن کو باہم بدلنے سے اس کی خوبصورتی اور روانی متاثر ہوتی ہے ۔
 

مقبول

محفلین
ریحان کی بات سے متفق ہوں کہ اس بحر میں مخبون (یعنی مفاعلن) اور مطوی (یعنی مفتعلن) کو ایک ہی نظم میں حسبِ خواہش باہم تبدیل کرنے کی کوئی مثال اردو شاعری میں نہیں ملتی ۔ رجز مثمن مطوی مخبون (یعنی مفتعلن مفاعلن مفتعلن مفاعلن) میں تو بے شمار کلام ملتا ہے ، غالب کی کئی مشہور غزلیں اس وزن میں ہیں ۔ لیکن رجز مخبون مطوی ( یعنی مفاعلن مفتعلن مفاعلن مفتعلن) میں کوئی کلام نظر نہیں آتا ۔ مولوی عبدالغنی رامپوری نے بھی بحرالفصاحت میں اسی قسم کا تبصرہ کیا ہے اور اس کی مثال میں فقط ایک شعر لکھا ہے:
جو اٹھ گیا رشکِ پری دکھا مجھے اپنی ادا ۔۔۔ تو کیا کہوں میرے وہیں حواس سے جاتے رہے
جس اصول کا ذکر مقبول صاحب نے بحوالہ بسمل صاحب اوپر کیا ہے وہ یاس یگانہ چنگیزی نے اپنی کتاب چراغِ سخن میں لکھا ہے اور کہا ہے کہ مفاعلن کو مفتعلن سے بدلا جاسکتا ہے اور ان اوزان کو ایک نظم میں جمع کرنا جائز ہے ۔ لیکن انہوں نے بھی یہ اصول صرف نقل کردیا ہے اس کی کوئی مثال پیش نہیں کی ۔

جیسا کہ ریحان نے کہا کہ بہت سارے اصول عروضی کتابوں میں مل تو جاتے ہیں لیکن ان کے استعمال کی کوئی مثال شعر سےنہیں ملتی ۔ اس کی وجہ میرے نزدیک یہی ہے کہ مروجہ علمِ عروض اردو میں عربی سے براستہ فارسی درآمد ہوا ہے ۔ مثال کے طور پر اردو کی کثیرالاستعمال اور مقبول بحر رمل سالم مخبون محذوف ( فاعلاتن فعلاتن فعلاتن فعلن) کے لئے بھی اکثر کتب عروض میں لکھا ملے گا کہ یہاں حشوین میں سے کسی ایک پر تسکینِ اوسط کے استعمال سے فعلاتن کو مفعولن میں بدلا جاسکتا ہے ۔ لیکن اس کی کوئی ایک مثال بھی شاید اردو شاعر میں نہیں ملے گی حالانکہ یہ اردو میں سب سے زیادہ مستعمل بحر ہے ۔ ( اگر کوئی شاعر تسکینِ اوسط کا استعمال کرے تو میری رائے میں اس خوبصورت بحر کی روانی کو متاثر کرے گا ۔)
اسی طرح رجز مثمن مطوی مخبون (یعنی زیرِ بحث غزل کی بحر) بھی ایک رواں اور خوبصورت بحر ہے اور اس میں مفاعلن اور مفتعلن کو باہم بدلنے سے اس کی خوبصورتی اور روانی متاثر ہوتی ہے ۔
بہت خوبصورت وضاحت! بہت شُکریہ ، محترم ظہیر صاحب
 
Top