برائے اصلاح - مجبوریوں کے نام پہ حسرت کمائے گی

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گزارش ہے۔

مجبوریوں کے نام پہ حسرت کمائے گی
یہ زندگی ابھی ہمیں کیا کیا دکھائے گی

معلوم کس کو تھا کہ شبِ ہجر آئے گی
یوں تیرگی نصیب کی خفت مٹائے گی

داغِ مفارقت تو ہمیں دے گیا ہے وہ
لیکن اسے بھی چین سے کیا نیند آئے گی؟

وہ بے خبر تھا یا اسے احساس ہی نہ تھا
اس کے بغیر زندگی کیا ظلم ڈھائے گی

خوشبو وصالِ یار کی اس دشت ہجر میں
اک دن بہار بن کے کبھی مسکرائے گی

رعنائیاں جو موسمِ الفت کی خاص ہیں
قسمت انھیں کبھی نہ کبھی کھینچ لائے گی

اُٹھی ہے ایک دم سے جو کالی گھٹا ابھی
کچے کسی مکان پہ بجلی گرائے گی

اُس شہر میں چلیں جہاں قانون ہو کہ اب
بولے گی سچ زباں تو وہ کاٹی نہ جائے گی
اُس شہر میں چلیں جہاں قانون ہو کہ اب
شوہر کو چھوڑ کر کبھی بیوی نہ جائے گی
 

فلسفی

محفلین
فلسفی بھائی بہت اچھی خاص طور پر آخری شعر

بہت شکریہ ارشد بھائی، آخری شعر کا سرگوشی والا مصرعہ یا بغیر سرگوشی والا :sneaky:

مطلع دو ہیں۔۔ بزرگ اعتراض کریں گے
جی اس کو حسن مطلع کہتے ہیں غالبا۔ اور مطلع کے بعد متعدد اشعار میں مکرر ایک ہی قافیہ دونوں مصرعوں میں استعمال ہوسکتا ہے۔ اس پر جیسے اساتذہ فرمائیں گے ویسے تبدیل کردیں گے۔
 

الف عین

لائبریرین
دو مطلع ہونے میں کوئی حرج نہیں
زیادہ تر درست ہی ہے غزل
وہ بے خبر تھا یا اسے احساس ہی نہ تھا
اس کے بغیر زندگی کیا ظلم ڈھائے گی
زندگی کی ی کا گرنا نا گوار لگتا ہے
اس کے بغیر زیست عجب ظلم....
لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ 'اس' سے کون مراد ہے؟

سرگوشی والا شعر تو دوسرے کان سے نکال دیا!
اُس شہر میں چلیں جہاں قانون ہو کہ اب
بولے گی سچ زباں تو وہ کاٹی نہ جائے گی
دوسرے مصرعے میں روانی متاثر ہو گئی ہے
بولے گی سچ زبان تو کاٹی نہ....
بہتر ہو شاید
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
وہ بے خبر تھا یا اسے احساس ہی نہ تھا
اس کے بغیر زندگی کیا ظلم ڈھائے گی
زندگی کی ی کا گرنا نا گوار لگتا ہے
اس کے بغیر زیست عجب ظلم....
لیکن یہ واضح نہیں ہوا کہ 'اس' سے جون مراد ہے؟
سر پہلے مصرعے میں "وہ" سے محبوب کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے مصرعے میں "اس" کا ربط "وہ" سے نہیں بنتا؟
ویسے تو پوری غزل میں غائب کا صیغہ ہے ورنہ تو یوں کہا جاسکتا ہے۔

تُو بے خبر تھا یا تجھے احساس ہی نہ تھا
تیرے بغیر زیست بہت ظلم ڈھائے گی

اُس شہر میں چلیں جہاں قانون ہو کہ اب
بولے گی سچ زباں تو وہ کاٹی نہ جائے گی
دوسرے مصرعے میں روانی متاثر ہو گئی ہے
بولے گی سچ زبان تو کاٹی نہ....
بہتر ہو شاید
جی بہتر ہے۔
مطلع میں "حسرت کمانا" محاورہ سننے میں نہیں آیا کبھی۔۔۔۔
چلیں حضرت اب تو سن لیا نا آپ نے :D

ویسے نشاندہی کے لیے بہت شکریہ۔ "ذلت کمانا" عام بولا جاتا ہے اسی مناسبت سے یہ استعمال کیا تھا۔ سر الف عین کیا "حسرت کمانا" استعمال کیا جا سکتا ہے؟
 

فلسفی

محفلین
سر پہلے مصرعے میں "وہ" سے محبوب کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے مصرعے میں "اس" کا ربط "وہ" سے نہیں بنتا؟
ویسے تو پوری غزل میں غائب کا صیغہ ہے ورنہ تو یوں کہا جاسکتا ہے۔

تُو بے خبر تھا یا تجھے احساس ہی نہ تھا
تیرے بغیر زیست بہت ظلم ڈھائے گی
سر ایک متبادل یہ بھی ہے

وہ بے خبر تھا یا اسے احساس ہی نہ تھا
تنہائیوں کی چوٹ بہت ظلم ڈھائے گی
 

وصی اللہ

محفلین
سر پہلے مصرعے میں "وہ" سے محبوب کی طرف اشارہ ہے۔ دوسرے مصرعے میں "اس" کا ربط "وہ" سے نہیں بنتا؟
ویسے تو پوری غزل میں غائب کا صیغہ ہے ورنہ تو یوں کہا جاسکتا ہے۔

تُو بے خبر تھا یا تجھے احساس ہی نہ تھا
تیرے بغیر زیست بہت ظلم ڈھائے گی


جی بہتر ہے۔

چلیں حضرت اب تو سن لیا نا آپ نے :D

ویسے نشاندہی کے لیے بہت شکریہ۔ "ذلت کمانا" عام بولا جاتا ہے اسی مناسبت سے یہ استعمال کیا تھا۔ سر الف عین کیا "حسرت کمانا" استعمال کیا جا سکتا ہے؟
اللہ برکت دے مزید کمائیے۔۔۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
تُو بے خبر تھا یا تجھے احساس ہی نہ تھا
تیرے بغیر زیست بہت ظلم ڈھائے گی
بہترین ہے
حسرت کمانا بھی کہا جا سکتا ہے میرے خیال میں
 
Top