فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گزارش ہے۔
مجبوریوں کے نام پہ حسرت کمائے گی
یہ زندگی ابھی ہمیں کیا کیا دکھائے گی
معلوم کس کو تھا کہ شبِ ہجر آئے گی
یوں تیرگی نصیب کی خفت مٹائے گی
داغِ مفارقت تو ہمیں دے گیا ہے وہ
لیکن اسے بھی چین سے کیا نیند آئے گی؟
وہ بے خبر تھا یا اسے احساس ہی نہ تھا
اس کے بغیر زندگی کیا ظلم ڈھائے گی
خوشبو وصالِ یار کی اس دشت ہجر میں
اک دن بہار بن کے کبھی مسکرائے گی
رعنائیاں جو موسمِ الفت کی خاص ہیں
قسمت انھیں کبھی نہ کبھی کھینچ لائے گی
اُٹھی ہے ایک دم سے جو کالی گھٹا ابھی
کچے کسی مکان پہ بجلی گرائے گی
اُس شہر میں چلیں جہاں قانون ہو کہ اب
بولے گی سچ زباں تو وہ کاٹی نہ جائے گی
یہ زندگی ابھی ہمیں کیا کیا دکھائے گی
معلوم کس کو تھا کہ شبِ ہجر آئے گی
یوں تیرگی نصیب کی خفت مٹائے گی
داغِ مفارقت تو ہمیں دے گیا ہے وہ
لیکن اسے بھی چین سے کیا نیند آئے گی؟
وہ بے خبر تھا یا اسے احساس ہی نہ تھا
اس کے بغیر زندگی کیا ظلم ڈھائے گی
خوشبو وصالِ یار کی اس دشت ہجر میں
اک دن بہار بن کے کبھی مسکرائے گی
رعنائیاں جو موسمِ الفت کی خاص ہیں
قسمت انھیں کبھی نہ کبھی کھینچ لائے گی
اُٹھی ہے ایک دم سے جو کالی گھٹا ابھی
کچے کسی مکان پہ بجلی گرائے گی
اُس شہر میں چلیں جہاں قانون ہو کہ اب
بولے گی سچ زباں تو وہ کاٹی نہ جائے گی
اُس شہر میں چلیں جہاں قانون ہو کہ اب
شوہر کو چھوڑ کر کبھی بیوی نہ جائے گی
شوہر کو چھوڑ کر کبھی بیوی نہ جائے گی