برائے اصلاح : مجھے عزیز ہے وہ شخص میری جاں کی طرح

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین صاحب ،
محترم یاسر شاہ صاحب ،
محترم محمد احسن سمیع راحلؔ صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔

~~~~~~~~~~~~~~~~~

مجھے عزیز ہے وہ شخص میری جاں کی طرح
مِرا کلام جو سنتا ہے نکتہ داں کی طرح

اسی لیے تو ہے مشہور وادئ کشمیر
نظارہ ملتا نہیں ہے کہیں ، وہاں کی طرح

نہیں ہے یار ! نہیں ہے ، جہان میں میٹھی
کوئی زبان ، مِری مادری زباں کی طرح

ہمارے گھر وہ گل اندام جب بھی آتا ہے
ہمارا گھر مہک اٹھتا ہے گلسِتاں کی طرح

مجھے ہے شوق تِرے ہاتھ سے اجڑنے کا
مجھے اجاڑ کبھی آ کے تٗو ، خزاں کی طرح

کبھی کسی کا کوئی راز فاش مت کرنا
چھپا کے رکھنا ہر اک راز ، راز داں کی طرح

تمہارے ہاں بھی سنا ہے کہ خوش نہیں ہے عوام
وہاں بھی امن کا فقدان ہے یہاں کی طرح ؟

خدا کا شکر ہے ، اِس دورِ مطلبی میں بھی
میں مطلبی نہیں ہوں ، مطلبی جہاں کی طرح

کہا تھا اُس نے ، مجھے چھوڑ کر نہ جائے گا
چلا گیا مگر اک دن وہ میہماں کی طرح

کوئی تو بات تھی اُس میں کہ اُس کے جاتے ہی
بہار بھی مجھے لگنے لگی خزاں کی طرح

سنا ہے تاج محل کو یہ غم ستاتا ہے
کہ وہ حَسین نہیں ہے ، تِرے مکاں کی طرح

میں کاروبارِ محبت سے باز آؤں کیوں ؟
جب اس میں کوئی زیاں ہی نہیں ، زیاں کی طرح

سوالِ وصل کا دیتا نہیں وہ کچھ بھی جواب
"نہیں" بھی یعنی نہیں کہتا ہے وہ "ہاں" کی طرح

بہ اعتبارِ فضیلت ، الگ ہے رتبہ ، مگر
مقام باپ کا بھی ہے بلند ، ماں کی طرح

مکیں کو چاہیے اپنے مکاں کی قدر کرے
مکاں قفس کی طرح ہو کہ آشیاں کی طرح !

فلاں ذہین بھی ہے ، شوخ بھی ، حسین بھی ہے ؟
زمیں پہ خاک کوئی ہوگا پھر فلاں کی طرح !

یہ اُس کے رس بھرے ہونٹوں کا ہے کمال اشرف
کہ میرے گال چمکتے ہیں ، کہکشاں کی طرح
 

یاسر شاہ

محفلین
مجھے عزیز ہے وہ شخص میری جاں کی طرح
مِرا کلام جو سنتا ہے نکتہ داں کی طرح
واہ۔سبحان اللہ اس آیت کی یاد دلا دی جس کا مفہوم یوں ہے کہ" اور جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے "
اسی لیے تو ہے مشہور وادئ کشمیر
نظارہ ملتا نہیں ہے کہیں ، وہاں کی طرح
یہ تو بس خانہ پری ہے۔
نہیں ہے یار ! نہیں ہے ، جہان میں میٹھی
کوئی زبان ، مِری مادری زباں کی طرح
پہلا مصرع جچ نہیں رہا:
جہاں میں گھوم چکے تو ہوا ہمیں معلوم
کوئی زباں نہیں ہے مادری زباں کی طرح
ہمارے گھر وہ گل اندام جب بھی آتا ہے
ہمارا گھر مہک اٹھتا ہے گلسِتاں کی طرح
خوب ۔مگر اس غزل میں سوائے ایک آدھ شعر کے لفظوں کی بے موقع تکرار پائی جاتی ہے۔اس شعر میں جیسے: ہمارے گھر : اور :ہمارا گھر:کی۔
اسے ہٹانے کی کوشش کریں جیسے:

ہمارے گھر وہ گل اندام جب کبھی آیا
مہک اٹھے در و دیوار گلستاں کی طرح

مجھے ہے شوق تِرے ہاتھ سے اجڑنے کا
مجھے اجاڑ کبھی آ کے تٗو ، خزاں کی طرح
یہاں بھی: مجھے:کی تکرار کھلتی ہے ۔ویسے شعر کی برجستگی اچھی ہے۔
کبھی کسی کا کوئی راز فاش مت کرنا
چھپا کے رکھنا ہر اک راز ، راز داں کی طرح
بقول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے راز کی حفاظت خود کرنی چاہیے کیونکہ ہر رازداں کا کوئی اور راز دان ہوتا ہے۔
شعر بھی خانہ پری ہے۔
تمہارے ہاں بھی سنا ہے کہ خوش نہیں ہے عوام
وہاں بھی امن کا فقدان ہے یہاں کی طرح ؟
:نہیں ہیں عوام: کر دیں ،عوام جمع ہے اور شعر میں حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے کہ صحیح اور فصیح زبان استعمال کی جائے۔
خدا کا شکر ہے ، اِس دورِ مطلبی میں بھی
میں مطلبی نہیں ہوں ، مطلبی جہاں کی طرح
یہاں بھی مطلبی کی تکرار کھل رہی ہے ،یوں لگتا ہے شاعر کے ذخیرہ الفاظ میں کمی ہے۔
کہا تھا اُس نے ، مجھے چھوڑ کر نہ جائے گا
چلا گیا مگر اک دن وہ میہماں کی طرح
ٹھیک ۔
کوئی تو بات تھی اُس میں کہ اُس کے جاتے ہی
بہار بھی مجھے لگنے لگی خزاں کی طرح
واہ۔ بے ساختہ پن اچھا لگا۔
سنا ہے تاج محل کو یہ غم ستاتا ہے
کہ وہ حَسین نہیں ہے ، تِرے مکاں کی طرح
دوسرے مصرع کو یوں بدل دیں :
کہ وہ حسیں نہیں ہے آپ کے مکاں کی طرح
تاکہ :حسین : اور :نہیں: کے: ن: میں ٹکراؤ سے بچا جا سکے۔

میں کاروبارِ محبت سے باز آؤں کیوں ؟
جب اس میں کوئی زیاں ہی نہیں ، زیاں کی طرح
ٹھیک۔
سوالِ وصل کا دیتا نہیں وہ کچھ بھی جواب
"نہیں" بھی یعنی نہیں کہتا ہے وہ "ہاں" کی طرح
دوسرے مصرع کو یوں کر دیں :
نہیں بھی منھ سے نہیں پھوٹتاوہ ہاں کی طرح
بہ اعتبارِ فضیلت ، الگ ہے رتبہ ، مگر
مقام باپ کا بھی ہے بلند ، ماں کی طرح
ماں باپ کی فضیلت نظم میں بیان کرنی چاہیے۔
مکیں کو چاہیے اپنے مکاں کی قدر کرے
مکاں قفس کی طرح ہو کہ آشیاں کی طرح !
ٹھیک۔
فلاں ذہین بھی ہے ، شوخ بھی ، حسین بھی ہے ؟
زمیں پہ خاک کوئی ہوگا پھر فلاں کی طرح !
ٹھیک
یہ اُس کے رس بھرے ہونٹوں کا ہے کمال اشرف
کہ میرے گال چمکتے ہیں ، کہکشاں کی طرح
انا للہ ۔۔ ڈاڑھی مونڈ دی کیا؟
 
آخری تدوین:

ارشد رشید

محفلین
واہ۔سبحان اللہ اس آیت کی یاد دلا دی۔
سر یہ ذرا زیادہ ہو گیا ہے - بلکہ بہت ہی زیادہ ہوگیا ہے - ایک زبردستی کے شعر کو جس میں اردو بھی غلط ہو (مجھے کے ساتھ میری جاں نہیں آئیگا بلکہ اپنی جاں آئیگا )
اسکو قران پاک کی آیت کی مثال بنانا ؟؟؟
 

یاسر شاہ

محفلین
سر یہ ذرا زیادہ ہو گیا ہے - بلکہ بہت ہی زیادہ ہوگیا ہے - ایک زبردستی کے شعر کو جس میں اردو بھی غلط ہو
واہ۔سبحان اللہ اس آیت کی یاد دلا دی۔
ارشد بھائی یاد آنے میں زور جبر تو ہے نہیں ،یوں یاد آئی کہ جب ایک شاعر کو اپنا کلام غور سے سننے والے سے اس قدر محبت ہے تو اللہ جل شانہ کو کہ جن کا کلام ہر لحاظ سے کامل ہے کیسی محبت ہو گی اپنے کلام پہ غور کرنے والے سے۔
مجھے کے ساتھ میری جاں نہیں آئیگا بلکہ اپنی جاں آئیگا )
یہ بات آپ کی درست ہے۔میں غور نہ کر سکا۔
 

ارشد رشید

محفلین
رشد بھائی یاد آنے میں زور جبر تو ہے نہیں ،یوں یاد آئی کہ جب ایک شاعر کو اپنا کلام غور سے سننے والے سے اس قدر محبت ہے تو اللہ جل شانہ کو کہ جن کا کلام ہر لحاظ سے کامل ہے کیسی محبت ہو گی اپنے کلام پہ غور کرنے والے سے۔
یہ بات آپ کی درست ہے - ایسا لگ سکتا ہے - مگر میرے نزدیک اس طرح کی باتوں پہ وا ہ کرنا شاعر کے ساتھ بھی زیادتی ہے اور اپنے ساتھ بھی - دیکھیئے یہ شان اللہ کی تو ہوسکتی ہے مگر انسان کے لیئے غلط ہو جاتی ہے بلکہ ایک طرح کی بڑائ اور غرور ہو جاتا ہے - یعنی جو میری بات غور سے سنتا ہے وہ مجھے جان سے عزیز ہے گویا آپ خود کو ہی سب کچھ سمجھ رہے ہیں - پھر ایسی بے وجہ واہ شاعر کے لیے بھی بری ہے کہ وہ اپنے کلام کو پتہ نہیں کیا کیا سمجھنے لگتا ہے-

مگر خیر وہ آپ کی رائے ہے یہ میری - ہم دونوں ہی اپنی اپنی جگہ صحیح ہیں -
 

یاسر شاہ

محفلین
یعنی جو میری بات غور سے سنتا ہے وہ مجھے جان سے عزیز ہے گویا آپ خود کو ہی سب کچھ سمجھ رہے ہیں
ارشد بھائی میں آپ سے متفق نہیں ہوں ،ایسا کوئی شرعی یا شعری اصول نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ میری بات پر توجہ کرنے والے کو محبوب رکھنے سے میں متکبر یا مغرور ہو جاتا ہوں۔شرعی اصول تو اس لیے نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے تمام اوصاف اور ا دائیں محبوبانہ تھیں اور ان کی سنت ہے مخاطب کی بات بھرپور توجہ سے سننا ۔
اور شعری اصول بھی نہیں کہ بچارے جون یہ کہہ کہہ کر فوت ہو گئے:
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
 

یاسر شاہ

محفلین
باقی میری کوشش ہوتی ہے کہ: صلاح و مشورہ: ایسا نہ ہو کہ سخنور کے پاس آخر میں کچھ بھی نہ بچے۔جیسے پنجاب کے ایک بابا تھے، خوب جوانی میں اصلی گھی کھائے ہوئے ،لٹھ لے کے چلتے تھےاور ہر جگہ لٹھ مار کر پوچھتے "ایہہ کی اے؟"(یہ کیا ہے؟)ایک جگہ ایک چوڑی فروش گٹھڑی میں چوڑیاں لیے جا رہا تھا ،بابا نے گٹھڑی پہ زور سے لٹھ مار کر پوچھا :"پتر ایہہ کی اے؟" چوڑی فروش نے کہا :" بابا جی پہلے تو چوڑیاں تھیں اب کچھ بھی نہیں "
 

ارشد رشید

محفلین
ارشد بھائی میں آپ سے متفق نہیں ہوں ،ایسا کوئی شرعی یا شعری اصول نہیں جس سے یہ ثابت ہو کہ میری بات پر توجہ کرنے والے کو محبوب رکھنے سے میں متکبر یا مغرور ہو جاتا ہوں۔شرعی اصول تو اس لیے نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ سلم کے تمام اوصاف اور ا دائیں محبوبانہ تھیں اور ان کی سنت ہے مخاطب کی بات بھرپور توجہ سے سننا ۔
اور شعری اصول بھی نہیں کہ بچارے جون یہ کہہ کہہ کر فوت ہو گئے:
ایک ہی حادثہ تو ہے اور وہ یہ کہ آج تک
بات نہیں کہی گئی بات نہیں سنی گئی
حضرت یاسر شاہ صاحب میں نے کسی شرعی یا شعری اصول کی بات نہیں کہی تھی صرف اتنا عرض کیا تھا کہ معنی کے اعتبار سے مجھے اس شعر میں کیا قباحت نظر آتی ہے - وہ میری رائے ہے کہ میں اسے اس نظریہ سے دیکھتا ہوں آپ کا یا کسی کا بھی متفق ہونا ضروری نہیں - آپ کو یا شاعر کو درست لگتا ہے تو بقول شخصے ست بسم اللہ :)
 

ارشد رشید

محفلین
باقی میری کوشش ہوتی ہے کہ: صلاح و مشورہ: ایسا نہ ہو کہ سخنور کے پاس آخر میں کچھ بھی نہ بچے۔جیسے پنجاب کے ایک بابا تھے، خوب جوانی میں اصلی گھی کھائے ہوئے ،لٹھ لے کے چلتے تھےاور ہر جگہ لٹھ مار کر پوچھتے "ایہہ کی اے؟"(یہ کیا ہے؟)ایک جگہ ایک چوڑی فروش گٹھڑی میں چوڑیاں لیے جا رہا تھا ،بابا نے گٹھڑی پہ زور سے لٹھ مار کر پوچھا :"پتر ایہہ کی اے؟" چوڑی فروش نے کہا :" بابا جی پہلے تو چوڑیاں تھیں اب کچھ بھی نہیں "
جناب یہاں بھی وہی نقطہ نظر کی بات آجاتی ہے - مجھے اس بابا کی مثال پہ بہت ہنسی آئی - مگر میں وہ بابا نہیں ہوں-
میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ شعر وزن میں ہو ،تمام قسم کے عیوبِ سخن سے پاک ہو اور کوئی غرابتِ زبان نہ ہو -
اسکے بعد اگر خیال پسند نہ آئے تو بتاتا ضرور ہوں شاعر کو مگر یہ شاعر کی مرضی ہے کہ ایسا شعر کہے یا نہ کہے -

اگر کوئی شاعر مُصر ہو ( اور مجھے ایسے بہت ملے) کہ وہ زور دیں کہ وہ اپنے اشعار میں عیوبِ سخن آنے کی پرواہ نہیں کریں گے تو یہ انکی مرضی ہے میں سلام کر کے الگ ہو جاتا ہوں
باقی میرے خیال میں اگر تھیلے میں غیر معیاری بے ڈھنگی چؤڑیا ں ہی ہوں تو انکا ٹوٹ جانا ہی بہتر ہے کیونکہ وہ کسی خوبصورت ہاتھ کی زینت تو پھر بھی نہ بن سکیں گی -
 

الف عین

لائبریرین
یاسر شاہ کے اصلاح کردہ مصرعوں کی مجھے بہتر صورت نظر رہی ہے
ہمارے ہاں وہ گل.....
تو سارا گھر مہک اٹھتا ہے.....
خواہ مخواہ ماضی کے صیغے کی ضرورت؟

تاج محل والا.. "نہیں ہے" بھی نہِہَ تقطیع ہونا روانی کو مخدوش کرتا ہے
نہیں وہ اتنا حسیں ہے ترے مکاں...
یا کچھ اور بہتر الفاظ میں
آپ کے مکاں میں ذرا تکلف ہو جاتا ہے

منہ سے پھوٹنا فصیح محاورہ نہیں لگتا، اس سے تو اشرف کا مصرعہ ہی بے ساختہ ہے "نہیں" والا
باقی اصلاح سے مکمل متفق
 

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم اعجاز صاحب

ہمارے ہاں وہ گل.....
تو سارا گھر مہک اٹھتا ہے.....
خواہ مخواہ ماضی کے صیغے کی ضرورت؟

میرے ذہن میں : ہمارے ہاں : جیسی صورت نہیں آئی تکرار کو ختم کرنے کے لیے جو آپ کے ذہن میں آئی تبھی: مہک اٹھے: شروع میں لا کر زمانہ بدلنا پڑا۔واقعی یہی طریق اصلاح عمدہ ہے کہ اصلاحی غزل میں کم سے کم الفاظ بدلے جائیں ۔تاکہ آخر میں یہی لگے کہ اشرف بھائی کا شعر ہے نہ کہ اعجاز صاحب یا یاسر کا ۔آپ کے مجوزہ دوسرے مصرع کو تھوڑا بدل کر :تو سارا گھر: کی جگہ: تمام گھر: بھی کیا جا سکتا ہے کہ شروع میں : تو:لانا: و : گرا کر جچ نہیں رہا۔


تاج محل والا.. "نہیں ہے" بھی نہِہَ تقطیع ہونا روانی کو مخدوش کرتا ہے
نہیں وہ اتنا حسیں ہے ترے مکاں...
یا کچھ اور بہتر الفاظ میں
آپ کے مکاں میں ذرا تکلف ہو جاتا ہے

یہ بھی بجا ہے کہ حروف علت گرانے سے روانی کم ہوتی ہے۔:اتنا: کا الف گرانے سے بھی بچا جا سکتا ہے:
حسیں نہیں ہے وہ اتنا ترے مکاں کی طرح
منہ سے پھوٹنا فصیح محاورہ نہیں لگتا، اس سے تو اشرف کا مصرعہ ہی بے ساختہ ہے "نہیں" والا

یہاں میری رائے کچھ مختلف ہے
سوالِ وصل کا دیتا نہیں وہ کچھ بھی جواب
"نہیں" بھی یعنی نہیں کہتا ہے وہ "ہاں" کی طرح

دوسرے مصرع میں بے ساختگی تو ہے لیکن روانی سخت مجروح ہے اور مصرع شکستہ ہے ۔
ان وجوہات کے سبب
1- :یعنی: کی ی کا گرنا ،آپ کا تو موقف سخت ہے عربی اور فارسی الفاظ کے آخری حروف علت گرانے کے متعلق ،میرے نزدیک تو گنجائش ہے بشرطیکہ روانی مجروح نہ ہو جو کہ یہاں ہو رہی ہے ۔
2-پھر: یعنی: یہاں صاف بھرتی کا لگ رہاہے۔
3-:یعنی نہیں: دونوں لفظوں کے بیچ صوتی تنافر بھی ہے۔
4-:نہیں : کی شعر میں تیسری بار تکرار اور مصرع میں دوسری بار تکرار کھل رہی ہے۔
ان سب عیوب سے بچنے کے لیے یہ مصرع تجویز کیا تھا۔
نہیں بھی منھ سے نہیں پھوٹتاوہ ہاں کی طرح

اس مصرع سے: یعنی: اور: کہتا: کےحروف علت بھی گرنے سے بچ گئے صوتی تنافر بھی ختم ہو گیا،بھرتی کے لفظ سے بھی بچ گئے۔اور بے لطف ؛نہیں :کی تیسری بار تکرار سے بھی بچت ہو گئی گو تکرار اب بھی ہے مگر مصرع صاف ہونے کی وجہ سے ویسی بے لطف نہیں۔ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ دوسرے مصرع میں جھنجھلاہٹ کا لہجہ بھی پیدا ہو گیا۔مصرع دو مطلب دے رہا ہے،ایک تو یہ کہ بیگم وصل کی خواہش پہ بالکل خاموش ہے نہیں بھی نہیں کہہ رہی اور ہاں بھی نہیں کہہ رہی اور دوسرا یہ کہ نہیں بھی اگر کہہ رہی ہے تو ایسا پھسپھسا نہیں کہہ رہی کہ شاعر کو ہاں لگے بلکہ ٹھپ انکار ہےاور ٹکا سا جواب نفی میں ہے فوجی اسٹائل میں۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
منہ سے پھوٹنا فصیح محاورہ نہیں لگتا
یہ بات آپ کی درست ہے کہ یہ فصیح زبان نہیں بولی ٹھولی ہے اسی لیے شعرا کے ہاں تو اس محاورے کی مثال نہیں ملتی البتہ منٹو کے ہاں اس محاورے کا استعمال ملتاہے ،ان کی زبان بھی سند ہے۔اس صفحے پہ مثالیں دیکھی جا سکتی ہیں۔

 

اشرف علی

محفلین


شعر کی برجستگی اچھی ہے۔

واہ۔ بے ساختہ پن اچھا لگا۔
پذیرائی اور حوصلہ افزائی کے لیے ممنون و متشکر ہوں سر
سنتے ہیں غزل میں ایک یا دو شعر اچھا نکل جائے تو اسے اچھی غزل کہہ سکتے ہیں ... یہاں تو آپ سے چار اشعار پہ داد مل گئی ...
مطلب اس غزل کو بھی ..!
جزاک اللّٰہ خیراً
 

اشرف علی

محفلین
الف عین سر ، یاسر شاہ سر
ان تینوں اشعار کو غزل سے نکال دوں کیا سر ؟
ویسے بھی اس غزل میں کافی اشعار ہیں !
اسی لیے تو ہے مشہور وادئ کشمیر
نظارہ ملتا نہیں ہے کہیں ، وہاں کی طرح
یہ تو بس خانہ پری ہے۔

کبھی کسی کا کوئی راز فاش مت کرنا
چھپا کے رکھنا ہر اک راز ، راز داں کی طرح
بقول حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے راز کی حفاظت خود کرنی چاہیے کیونکہ ہر رازداں کا کوئی اور راز دان ہوتا ہے۔
شعر بھی خانہ پری ہے۔

بہ اعتبارِ فضیلت ، الگ ہے رتبہ ، مگر
مقام باپ کا بھی ہے بلند ، ماں کی طرح
ماں باپ کی فضیلت نظم میں بیان کرنی چاہیے۔
کیا تینوں اشعار ٹھیک ہیں ؟ خاص طور سے تیسرا شعر کیا صحیح ہے ؟
 

اشرف علی

محفلین
اس غزل میں سوائے ایک آدھ شعر کے لفظوں کی بے موقع تکرار پائی جاتی ہے۔اس شعر میں جیسے: ہمارے گھر : اور :ہمارا گھر:کی۔
اسے ہٹانے کی کوشش کریں جیسے:

ہمارے گھر وہ گل اندام جب کبھی آیا
مہک اٹھے در و دیوار گلستاں کی طرح
ہمارے ہاں وہ گل.....
تو سارا گھر مہک اٹھتا ہے.....

میرے ذہن میں : ہمارے ہاں : جیسی صورت نہیں آئی تکرار کو ختم کرنے کے لیے جو آپ کے ذہن میں آئی تبھی: مہک اٹھے: شروع میں لا کر زمانہ بدلنا پڑا۔واقعی یہی طریق اصلاح عمدہ ہے کہ اصلاحی غزل میں کم سے کم الفاظ بدلے جائیں ۔تاکہ آخر میں یہی لگے کہ اشرف بھائی کا شعر ہے نہ کہ اعجاز صاحب یا یاسر کا ۔آپ کے مجوزہ دوسرے مصرع کو تھوڑا بدل کر :تو سارا گھر: کی جگہ: تمام گھر: بھی کیا جا سکتا ہے کہ شروع میں : تو:لانا: و : گرا کر جچ نہیں رہا۔
سر !کیا یہاں :و: گرانا فصیح نہیں ہے ؟

ہمارے ہاں وہ گل اندام جب بھی آتا ہے
تو سارا گھر مہک اٹھتا ہے گلسِتاں کی طرح

مجھے ہے شوق تِرے ہاتھ سے اجڑنے کا
مجھے اجاڑ کبھی آ کے تٗو ، خزاں کی طرح
یہاں بھی: مجھے:کی تکرار کھلتی ہے
کیا ایسے کر دینے سے ٹھیک ہو جائے گا سر ؟

ہےمجھ کو شوق تِرے ہاتھ سے اجڑنے کا
مجھے اجاڑ کبھی آ کے تٗو ، خزاں کی طرح


:نہیں ہیں عوام: کر دیں ،عوام جمع ہے اور شعر میں حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے کہ صحیح اور فصیح زبان استعمال کی جائے۔
جی سر ! بہت بہت شکریہ ،جزاک اللّٰہ خیراً

تمہارے ہاں بھی سنا ہے کہ خوش نہیں ہیں عوام
وہاں بھی امن کا فقدان ہے یہاں کی طرح ؟

یہ اُس کے رس بھرے ہونٹوں کا ہے کمال اشرف
کہ میرے گال چمکتے ہیں ، کہکشاں کی طرح
ڈاڑھی مونڈ دی کیا؟
نہیں سر !
شعر ٹھیک ہے سر؟
 

اشرف علی

محفلین
خدا کا شکر ہے ، اِس دورِ مطلبی میں بھی
میں مطلبی نہیں ہوں ، مطلبی جہاں کی طرح
یہاں بھی مطلبی کی تکرار کھل رہی ہے ،یوں لگتا ہے شاعر کے ذخیرہ الفاظ میں کمی ہے۔
او ! اب دیکھیے سر !

سو عہدِ نفس پرستی میں بھی بفضلِ خدا
میں خود غرض نہیں ہوں ، مطلبی جہاں کی طرح

سنا ہے تاج محل کو یہ غم ستاتا ہے
کہ وہ حَسین نہیں ہے ، تِرے مکاں کی طرح
دوسرے مصرع کو یوں بدل دیں :
کہ وہ حسیں نہیں ہے آپ کے مکاں کی طرح
تاکہ :حسین : اور :نہیں: کے: ن: میں ٹکراؤ سے بچا جا سکے۔
تاج محل والا.. "نہیں ہے" بھی نہِہَ تقطیع ہونا روانی کو مخدوش کرتا ہے
نہیں وہ اتنا حسیں ہے ترے مکاں...
یا کچھ اور بہتر الفاظ میں
آپ کے مکاں میں ذرا تکلف ہو جاتا ہے
یہ بھی بجا ہے کہ حروف علت گرانے سے روانی کم ہوتی ہے۔:اتنا: کا الف گرانے سے بھی بچا جا سکتا ہے:
حسیں نہیں ہے وہ اتنا ترے مکاں کی طرح
سر ! کیا دوسرا مصرع :کہ: کے بغیر چل سکتا ہے ؟

سنا ہے تاج محل کو یہ غم ستاتا ہے
حسیں نہیں ہے وہ اتنا تِرے مکاں کی طرح
یا
کہ ہو سکا نہ حَسیں وہ ، تِرے مکاں کی طرح
یا
"حَسین نہیں" والا ہی چلنے دوں ؟

سوالِ وصل کا دیتا نہیں وہ کچھ بھی جواب
"نہیں" بھی یعنی نہیں کہتا ہے وہ "ہاں" کی طرح
نہیں بھی منھ سے نہیں پھوٹتاوہ ہاں کی طرح
منہ سے پھوٹنا فصیح محاورہ نہیں لگتا، اس سے تو اشرف کا مصرعہ ہی بے ساختہ ہے "نہیں" والا
دوسرے مصرع میں بے ساختگی تو ہے لیکن روانی سخت مجروح ہے اور مصرع شکستہ ہے ۔
ان وجوہات کے سبب
1- :یعنی: کی ی کا گرنا ،آپ کا تو موقف سخت ہے عربی اور فارسی الفاظ کے آخری حروف علت گرانے کے متعلق ،میرے نزدیک تو گنجائش ہے بشرطیکہ روانی مجروح نہ ہو جو کہ یہاں ہو رہی ہے ۔
2-پھر: یعنی: یہاں صاف بھرتی کا لگ رہاہے۔
3-:یعنی نہیں: دونوں لفظوں کے بیچ صوتی تنافر بھی ہے۔
4-:نہیں : کی شعر میں تیسری بار تکرار اور مصرع میں دوسری بار تکرار کھل رہی ہے۔
ان سب عیوب سے بچنے کے لیے یہ مصرع تجویز کیا تھا۔

اس مصرع سے: یعنی: اور: کہتا: کےحروف علت بھی گرنے سے بچ گئے صوتی تنافر بھی ختم ہو گیا،بھرتی کے لفظ سے بھی بچ گئے۔اور بے لطف ؛نہیں :کی تیسری بار تکرار سے بھی بچت ہو گئی گو تکرار اب بھی ہے مگر مصرع صاف ہونے کی وجہ سے ویسی بے لطف نہیں۔ایک اور فائدہ یہ ہوا کہ دوسرے مصرع میں جھنجھلاہٹ کا لہجہ بھی پیدا ہو گیا۔مصرع دو مطلب دے رہا ہے،ایک تو یہ کہ بیگم وصل کی خواہش پہ بالکل خاموش ہے نہیں بھی نہیں کہہ رہی اور ہاں بھی نہیں کہہ رہی اور دوسرا یہ کہ نہیں بھی اگر کہہ رہی ہے تو ایسا پھسپھسا نہیں کہہ رہی کہ شاعر کو ہاں لگے بلکہ ٹھپ انکار ہےاور ٹکا سا جواب نفی میں ہے فوجی اسٹائل میں۔
یعنی کی جگہ "یار" یا "کھل کے" چلے گا سر ؟

سوالِ وصل کا دیتا نہیں وہ کچھ بھی جواب
"نہیں" بھی( یار! /کھل کے) نہیں کہتا ہے وہ "ہاں" کی طرح
 

یاسر شاہ

محفلین
تو سارا گھر مہک اٹھتا ہے.....

@الف عین سر ، @یاسر شاہ سر
ان تینوں اشعار کو غزل سے نکال دوں کیا سر ؟
ویسے بھی اس غزل میں کافی اشعار ہیں
نکال دیں تو بہتر ہے۔
کیا تینوں اشعار ٹھیک ہیں ؟ خاص طور سے تیسرا شعر کیا صحیح ہے ؟
تیسرے شعر میں تکنیکی طور پہ کوئی خرابی نہیں ،رکھنا چاہیں تو رکھ لیں یا کوئی نظم لکھ دیں "ابا جان" یا "بابا جانی" اس میں یہ شعر بھی لے آئیے اور بوسے کے مضامین بھی باندھ لیجیے گا ،والد صاحب کی قدم بوسی اور دست بوسی سعادت کی بات ہے۔
سر !کیا یہاں :و: گرانا فصیح نہیں ہے ؟

ہمارے ہاں وہ گل اندام جب بھی آتا ہے
تو سارا گھر مہک اٹھتا ہے گلسِتاں کی طرح
بھائی آپ کا مطمئن ہونا ضروری ہے۔رکھ لیجیے اگر آپ مطمئن ہیں۔
کیا ایسے کر دینے سے ٹھیک ہو جائے گا سر ؟

ہےمجھ کو شوق تِرے ہاتھ سے اجڑنے کا
مجھے اجاڑ کبھی آ کے تٗو ، خزاں کی طرح
ٹھیک۔
نہیں سر !
شعر ٹھیک ہے سر؟
بوسے بازی کے اشعار سے گریز کرنا چاہیے۔
 

اشرف علی

محفلین
مجھے عزیز ہے وہ شخص میری جاں کی طرح
(مجھے کے ساتھ میری جاں نہیں آئیگا بلکہ اپنی جاں آئیگا )
ارشد رشید سر ! آپ کا بہت بہت شکریہ ، جزاک اللّٰہ خیراً
یہ بات آپ کی درست ہے۔میں غور نہ کر سکا۔
یہاں :میری: کی جگہ :اپنی: کر دوں سر !

باقی اصلاح سے مکمل متفق
الف عین سر ، یاسر شاہ سر ، ارشد رشید سر
اصلاح و رہنمائی کے لیے تہہِ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں
اللہ تعالیٰ آپ لوگوں کا سایہ تادیر سلامت رکھے ، آمین ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
سو عہدِ نفس پرستی میں بھی بفضلِ خدا
میں خود غرض نہیں ہوں ، مطلبی جہاں کی طرح
سو اب بھی زائد از ضرورت ہے۔
کہ ہو سکا نہ حَسیں وہ ، تِرے مکاں کی طرح
اسے رکھ لیں۔
"نہیں" بھی( یار! /کھل کے) نہیں کہتا ہے وہ "ہاں" کی طرح
"نہیں بھی کھل کے نہیں کہہ رہا وہ ہاں کی طرح "
اس طرح ٹھیک لگ رہا ہے
 
Top