اشرف علی
محفلین
محترم الف عین صاحب ،
محترم یاسر شاہ صاحب ،
محترم محمد احسن سمیع راحلؔ صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~
مجھے عزیز ہے وہ شخص میری جاں کی طرح
مِرا کلام جو سنتا ہے نکتہ داں کی طرح
اسی لیے تو ہے مشہور وادئ کشمیر
نظارہ ملتا نہیں ہے کہیں ، وہاں کی طرح
نہیں ہے یار ! نہیں ہے ، جہان میں میٹھی
کوئی زبان ، مِری مادری زباں کی طرح
ہمارے گھر وہ گل اندام جب بھی آتا ہے
ہمارا گھر مہک اٹھتا ہے گلسِتاں کی طرح
مجھے ہے شوق تِرے ہاتھ سے اجڑنے کا
مجھے اجاڑ کبھی آ کے تٗو ، خزاں کی طرح
کبھی کسی کا کوئی راز فاش مت کرنا
چھپا کے رکھنا ہر اک راز ، راز داں کی طرح
تمہارے ہاں بھی سنا ہے کہ خوش نہیں ہے عوام
وہاں بھی امن کا فقدان ہے یہاں کی طرح ؟
خدا کا شکر ہے ، اِس دورِ مطلبی میں بھی
میں مطلبی نہیں ہوں ، مطلبی جہاں کی طرح
کہا تھا اُس نے ، مجھے چھوڑ کر نہ جائے گا
چلا گیا مگر اک دن وہ میہماں کی طرح
کوئی تو بات تھی اُس میں کہ اُس کے جاتے ہی
بہار بھی مجھے لگنے لگی خزاں کی طرح
سنا ہے تاج محل کو یہ غم ستاتا ہے
کہ وہ حَسین نہیں ہے ، تِرے مکاں کی طرح
میں کاروبارِ محبت سے باز آؤں کیوں ؟
جب اس میں کوئی زیاں ہی نہیں ، زیاں کی طرح
سوالِ وصل کا دیتا نہیں وہ کچھ بھی جواب
"نہیں" بھی یعنی نہیں کہتا ہے وہ "ہاں" کی طرح
بہ اعتبارِ فضیلت ، الگ ہے رتبہ ، مگر
مقام باپ کا بھی ہے بلند ، ماں کی طرح
مکیں کو چاہیے اپنے مکاں کی قدر کرے
مکاں قفس کی طرح ہو کہ آشیاں کی طرح !
فلاں ذہین بھی ہے ، شوخ بھی ، حسین بھی ہے ؟
زمیں پہ خاک کوئی ہوگا پھر فلاں کی طرح !
یہ اُس کے رس بھرے ہونٹوں کا ہے کمال اشرف
کہ میرے گال چمکتے ہیں ، کہکشاں کی طرح
محترم یاسر شاہ صاحب ،
محترم محمد احسن سمیع راحلؔ صاحب
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔
~~~~~~~~~~~~~~~~~
مجھے عزیز ہے وہ شخص میری جاں کی طرح
مِرا کلام جو سنتا ہے نکتہ داں کی طرح
اسی لیے تو ہے مشہور وادئ کشمیر
نظارہ ملتا نہیں ہے کہیں ، وہاں کی طرح
نہیں ہے یار ! نہیں ہے ، جہان میں میٹھی
کوئی زبان ، مِری مادری زباں کی طرح
ہمارے گھر وہ گل اندام جب بھی آتا ہے
ہمارا گھر مہک اٹھتا ہے گلسِتاں کی طرح
مجھے ہے شوق تِرے ہاتھ سے اجڑنے کا
مجھے اجاڑ کبھی آ کے تٗو ، خزاں کی طرح
کبھی کسی کا کوئی راز فاش مت کرنا
چھپا کے رکھنا ہر اک راز ، راز داں کی طرح
تمہارے ہاں بھی سنا ہے کہ خوش نہیں ہے عوام
وہاں بھی امن کا فقدان ہے یہاں کی طرح ؟
خدا کا شکر ہے ، اِس دورِ مطلبی میں بھی
میں مطلبی نہیں ہوں ، مطلبی جہاں کی طرح
کہا تھا اُس نے ، مجھے چھوڑ کر نہ جائے گا
چلا گیا مگر اک دن وہ میہماں کی طرح
کوئی تو بات تھی اُس میں کہ اُس کے جاتے ہی
بہار بھی مجھے لگنے لگی خزاں کی طرح
سنا ہے تاج محل کو یہ غم ستاتا ہے
کہ وہ حَسین نہیں ہے ، تِرے مکاں کی طرح
میں کاروبارِ محبت سے باز آؤں کیوں ؟
جب اس میں کوئی زیاں ہی نہیں ، زیاں کی طرح
سوالِ وصل کا دیتا نہیں وہ کچھ بھی جواب
"نہیں" بھی یعنی نہیں کہتا ہے وہ "ہاں" کی طرح
بہ اعتبارِ فضیلت ، الگ ہے رتبہ ، مگر
مقام باپ کا بھی ہے بلند ، ماں کی طرح
مکیں کو چاہیے اپنے مکاں کی قدر کرے
مکاں قفس کی طرح ہو کہ آشیاں کی طرح !
فلاں ذہین بھی ہے ، شوخ بھی ، حسین بھی ہے ؟
زمیں پہ خاک کوئی ہوگا پھر فلاں کی طرح !
یہ اُس کے رس بھرے ہونٹوں کا ہے کمال اشرف
کہ میرے گال چمکتے ہیں ، کہکشاں کی طرح