برائے اصلاح : محبت سے کنارہ کر لیا جائے : از : ایم اے راجا ؔ

ایم اے راجا

محفلین
ایک مزید غزل نما شے برائے اصلاح و رائے حاضر ہے۔

محبت سے کنارہ کر لیا جائے
خموشی سے گذارہ کر لیا جائے

بہت تاریک ہے دیکھو شبِ ہجراں
رگِ جاں کو شرارہ کر لیا جائے

سنا ہے وہ بھی آیا ہے سرِ محفل
چلو اس کا نظارہ کر لیا جائے

گیا تو تھا مگر لوٹا مری جانب
اسے کیوں نہ گوارا کر لیا جائے

رگِ جاں میں حرارت ہی نہیں باقی
جو پھر جینے کا یارا کر لیا جائے

یہ بچے بھی کسی کے بچے ہیں ہمدم
انھیں آنکھوں کا تارا کر لیا جائے

ضروری تو نہیں وہ لوٹ آئے پھر
نیا جینے کا چارہ کر لیا جائے

یہ شامِ غم حسیں ہے اسقدر راجا
اسے شب کا سہارا کر لیا جائے​
 

الف عین

لائبریرین
کل دیکھی تھی لیکن اس وقت وقت نہیں تھا، فوراً لاگ آؤٹ کر دیا تھا۔ اب آج کاپی پیہسٹ کر رہا ہوں۔ انشاء اللہ جلد ہی۔
 
مقطع کا مصرع ثانی بحر سے خارج ھے، ،، زیست ،، غلط باندھا گیا ھے ، رگ ِ جاں کا دو بارہ استعمال بھی نظر ثانی چاھتا ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ الفاظ کی نشست و برخواست سے غزل کو بہتر بنانے کی گنجائش موجود ھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔خوش آباد
 
محض معلومات کی غرض سے چند باتیں جاننا چاہتے ہیں۔

جو پھر جینے کا یارہ کر لیا جائے

اس میں یارہ کا کیا مطلب ہے؟ ہمیں نہیں یاد پڑتا کہ کبھی پہلے اس لفظ کو ہم نے پڑھا ہو۔

یہ بچے بھی کسی کے بچے ہیں ہمدم

یہ مصرع گنگناتے ہوئے تو کوئی مسئلہ نہیں کرتا یعنی اوزان درست ہوں گے۔ لیکن ایک ہی شعر میں "بچے" کی تکرار اور اس پر طرہ "چ" کا مشدد ہونا، ادائگی میں ذرا سا ثقل ڈال رہا ہے۔ ہم نے اس کو "یہ بچے بھی کسی کے لعل/لال ہیں ہمدم" کر کے دیکھا تو روانی زیادہ محسوس ہوئی۔

قوافی میں بعض مقامات پر الف کی جگہ ہ کا استعمال املا پر سوال اٹھاتا ہے۔ خاص کر "سہارہ" اس سے قبل کبھی نظروں سے نہیں گذرا۔

آخری شعر تو بہر حال درستگی چاہتا ہے کہ وہ ہماری "ابے کھٹ کھٹ" کی گرفت سے باہر جا رہا ہے۔ :)
 

عین عین

لائبریرین
اوں ہوں، راجا، کچھ اچھا نہیں لگا مجھے تو۔ نہ خیالات نہ الفاظ کا برتاو، دروبست، چاشنی ہے نہ نغمگی۔ لگتا ہے تمھاری موزونیت کو نزلہ کھانسی اور بخار ہے۔ ڈاکٹر(شاعر، اساتذہ) کے پاس جائو۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
محبت سے کنارہ کر لیا جائے
خموشی سے گذارہ کر لیا جائے
//فنی طور پر درست، ویسے خموشی سے یہاں کیا مراد ہے؟ کیا محبت میں شور ہوتا ہے؟

بہت تاریک ہے دیکھو شبِ ہجراں
رگِ جاں کو شرارہ کر لیا جائے
//’دیکھو‘ تمہارا بڑا ’پالتو‘ لفظ ہے، جو اکثر وزن پورا کرنے کے لئے لاتے ہو، اس سے بچو۔
’شب ہجراں اگر تاریک تر ہو‘
یا اس قسم کا کوئی دوسرا مصرع سوچو۔ میں متبادل ڈھونڈنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتا۔

سنا ہے وہ بھی آیا ہے سرِ محفل
چلو اس کا نظارہ کر لیا جائے
//درست

گیا تو تھا مگر لوٹا مری جانب
اسے کیوں نہ گوارہ کر لیا جائے
// پہلے مصرع میں لوٹا کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اسے ’پلٹا‘ کیا جا سکتا ہے۔ اور زیادہ رواں بنا کر
گیا تو تھا مگر پلٹا مری جانب
گیا لیکن مری ہی سمت پلٹا/ لوٹا
یا اسی قسم کا کوئی متبادل
اور دوسرا مصرع درست تو ہے، لیکن وہی میں اس قسم کا ’نہ‘ مشکل سے ہی گوارا کرتا ہوں۔
نہ کیوں اس کو گوارا کر لیا جائے

رگِ جاں میں حرارت ہی نہیں باقی
جو پھر جینے کا یارہ کر لاا جائے
//مطلب؟ رگِ جاں میں حرارت ہوتی ہے۔ یہ اب معلوم ہوا!!
’جو پھر‘ بھی کانوں کو بھلا نہیں لگتا۔

یہ بچے بھی کسی کے بچے ہیں ہمدم
انھیں آنکھوں کا تارہ کر لیا جائے
// دوسرے ’بچے‘ کا ے گرنا اچھا نہیں۔ محض بچچ آتا ہے تقطیع میں۔ اور ’ہمدم‘ تو بھرتی کا ہی ہے۔
یہ بچے بھی تو بچے ہیں کسی کے
زیادہ رواں ہو جاتا ہے۔ لیکن بہتر ہو کہ دوسری بار ’بچے‘ کی جگہ کچھ اور رکھا جائے۔ جیسے
یہ بچے بھی کسی گھر کے دئے ہیں

ضروری تو نہیں وہ لوٹ آئے پھر
نیا جینے کا چارہ کر لیا جائے
//درست

یہ شامِ غم حسیں ہے اسقدر راجا
اسے شب کا سہارہ کر لیا جائے
// ’سہارہ‘ سے قطع نظر، یہ بتاؤ کہ شام غم حسیں کیوں!!
 

مغزل

محفلین
راجہ بھیا۔۔ غزل باصرہ نواز ہوئی ۔ ماشا اللہ خوب سے خوب لکھیے ۔
بابا جانی کی رہنمائی کو پلو سے باندھ لیں تو اس مشکل سفر میں آسانیاں بہم رہیں گی۔
میں ایک بار عرض گزار ہونا چاہتا ہوں کہ ۔ کوشش کر کے اپنے کلام کو ’’خود تنقیدی‘‘ کے عمل سے گزارلینے کے بعد
بزرگ ادباء سے رجوع کیا جائے تو بہتر ہوگا۔ تاکہ کاتا اور لے دوڑی جیسے میلانات کی حوصلہ شکنی ہوسکے۔
دعا گو ہوں کہ ربِّ نطق و سخن آپ کے لیے اس سفر میں آسانیاں پیدا فرمائے ۔ آمین
 

ایم اے راجا

محفلین
محبت سے کنارہ کر لیا جائے
خموشی سے گذارہ کر لیا جائے
//فنی طور پر درست، ویسے خموشی سے یہاں کیا مراد ہے؟ کیا محبت میں شور ہوتا ہے؟

بہت تاریک ہے دیکھو شبِ ہجراں
رگِ جاں کو شرارہ کر لیا جائے
//’دیکھو‘ تمہارا بڑا ’پالتو‘ لفظ ہے، جو اکثر وزن پورا کرنے کے لئے لاتے ہو، اس سے بچو۔
’شب ہجراں اگر تاریک تر ہو‘
یا اس قسم کا کوئی دوسرا مصرع سوچو۔ میں متبادل ڈھونڈنے میں زیادہ وقت نہیں لگاتا۔

سنا ہے وہ بھی آیا ہے سرِ محفل
چلو اس کا نظارہ کر لیا جائے
//درست

گیا تو تھا مگر لوٹا مری جانب
اسے کیوں نہ گوارہ کر لیا جائے
// پہلے مصرع میں لوٹا کچھ اچھا نہیں لگ رہا ہے۔ اسے ’پلٹا‘ کیا جا سکتا ہے۔ اور زیادہ رواں بنا کر
گیا تو تھا مگر پلٹا مری جانب
گیا لیکن مری ہی سمت پلٹا/ لوٹا
یا اسی قسم کا کوئی متبادل
اور دوسرا مصرع درست تو ہے، لیکن وہی میں اس قسم کا ’نہ‘ مشکل سے ہی گوارا کرتا ہوں۔
نہ کیوں اس کو گوارا کر لیا جائے

رگِ جاں میں حرارت ہی نہیں باقی
جو پھر جینے کا یارہ کر لاا جائے
//مطلب؟ رگِ جاں میں حرارت ہوتی ہے۔ یہ اب معلوم ہوا!!
’جو پھر‘ بھی کانوں کو بھلا نہیں لگتا۔

یہ بچے بھی کسی کے بچے ہیں ہمدم
انھیں آنکھوں کا تارہ کر لیا جائے
// دوسرے ’بچے‘ کا ے گرنا اچھا نہیں۔ محض بچچ آتا ہے تقطیع میں۔ اور ’ہمدم‘ تو بھرتی کا ہی ہے۔
یہ بچے بھی تو بچے ہیں کسی کے
زیادہ رواں ہو جاتا ہے۔ لیکن بہتر ہو کہ دوسری بار ’بچے‘ کی جگہ کچھ اور رکھا جائے۔ جیسے
یہ بچے بھی کسی گھر کے دئے ہیں

ضروری تو نہیں وہ لوٹ آئے پھر
نیا جینے کا چارہ کر لیا جائے
//درست

یہ شامِ غم حسیں ہے اسقدر راجا
اسے شب کا سہارہ کر لیا جائے
// ’سہارہ‘ سے قطع نظر، یہ بتاؤ کہ شام غم حسیں کیوں!!
محبت سے کنارہ کر لیا جائے
خموشی سے گذارہ کر لیا جائے

بہت تاریک ہے دیکھو شبِ ہجراں -- شبِ ہجراں کی اس تاریکی میں ہمدم
رگِ جاں کو شرارہ کر لیا جائے

سنا ہے وہ بھی آیا ہے سرِ محفل
چلو اس کا نظارہ کر لیا جائے

گیا تو تھا مگر پلٹا مری جانب

نہ کیوں اس کو گوارا کر لیا جائے

رگِ جاں میں حرارت ہی نہیں باقی ۔۔۔۔ دلِ لرزاں میں طاقت ہی نہیں باقی
جو پھر جینے کا یارا کر لیا جائے

یہ بچے بھی کسی کے بچے ہیں ہمدم ۔۔۔ یہ بچے بھی کسی کے لال ہیں ہمدم
انھیں آنکھوں کا تارا کر لیا جائے

ضروری تو نہیں وہ لوٹ آئے پھر
نیا جینے کا چارہ کر لیا جائے

بھلا کر یادِ رفتہ کو ذرا راجا
امیدِ نو کو تارا کر لیا جائے


سر اس میں کچھ کچھ کیا ہے دیکجیئے گا۔
 

الف عین

لائبریرین
راجا، "ہمدم‘ کا معاملہ بھی وہی ہے جو ’دیکھو‘ کا ہے، محض وزن پورا کرنے کے لئے بھرتی کا لفظ،
بہت تاریک ہے یہ ہجر کی شب بھی
رگِ جاں کو شرارہ کر لیا جائے

قسم کے مصرع سے گرہ لگ سکتی ہے، جو کم از کم ’ہمدم‘ یا ’دیکھو‘ سے زیادہ بہتر ہے، اگرچہ اس سے بہتر بھی ممکن ہے۔

بچوں والا شعر میں میری اصلاح میں کیا خرابی ہے؟ ’تارا‘ کی مناسبت سے مجھے تو ’دئے‘ ہی پسند ہے

مقطع اب بھی پسند نہیں آیا، دوسرا کہو۔
 

ایم اے راجا

محفلین
محبت سے کنارہ کر لیا جائے
خموشی سے گذارہ کر لیا جائے

بہت تاریک ہے دیکھو شبِ ہجراں -- شبِ ہجراں کی اس تاریکی میں ہمدم ۔
رگِ جاں کو شرارہ کر لیا جائے

سنا ہے وہ بھی آیا ہے سرِ محفل
چلو اس کا نظارہ کر لیا جائے ۔ چلو چل کے نظارا کر لیا جائے

گیا تو تھا مگر پلٹا مری جانب

نہ کیوں اس کو گوارا کر لیا جائے

رگِ جاں میں حرارت ہی نہیں باقی ۔۔۔ ۔ دلِ لرزاں میں طاقت ہی نہیں باقی
جو پھر جینے کا یارا کر لیا جائے

یہ بچے بھی کسی کے بچے ہیں ہمدم ۔۔۔ یہ بچے بھی کسی کے لال ہیں ہمدم ۔ یہ بچے بھی کسی گھر کے دیئے ہیں ( سر اس میں دو رکن کم ہو رہہےہیں) یوں ہو تو ۔ یہ بچے بھی کسی گھر کے دیئے تو، ہی ہیں
انھیں آنکھوں کا تارا کر لیا جائے

ضروری تو نہیں وہ لوٹ آئے پھر
نیا جینے کا چارہ کر لیا جائے

بھلا کر یادِ رفتہ کو ذرا راجا
امیدِ نو کو تارا کر لیا جائے اسے بعد میں دیکھتا ہوں سر
 

الف عین

لائبریرین
رگِ جاں میں حرارت ہی نہیں باقی ۔۔۔ ۔ دلِ لرزاں میں طاقت ہی نہیں باقی
یہ دونوں مصرعے پسند نہیں مجھے۔ دل لرزتاہے خوف سے، یہاں محض لہو یا خون کا موقع ہے، جس کی حرارت کا ذکر ہو۔ یوں کہو تو
لہو ٹھنڈا ہے، حدت ہی نہیں باقی
کہ جینے کا سہارا کر لیا جائے۔
دئے والا مصرع نہ جانے کس دھن میں لکھ گیا ورنہ ذہن میں یہی تھا
یہ بچے بھی کسی گھر کے دئے ہوں گے
 

ایم اے راجا

محفلین
رگِ جاں میں حرارت ہی نہیں باقی ۔۔۔ ۔ دلِ لرزاں میں طاقت ہی نہیں باقی
یہ دونوں مصرعے پسند نہیں مجھے۔ دل لرزتاہے خوف سے، یہاں محض لہو یا خون کا موقع ہے، جس کی حرارت کا ذکر ہو۔ یوں کہو تو
لہو ٹھنڈا ہے، حدت ہی نہیں باقی
کہ جینے کا سہارا کر لیا جائے۔
دئے والا مصرع نہ جانے کس دھن میں لکھ گیا ورنہ ذہن میں یہی تھا
یہ بچے بھی کسی گھر کے دئے ہوں گے
سر اگر یوں کہا جائے اس شعر کو تو ؟

لہو میں اب حرارت ہی نہیں باقی
کہ پھر جینے کا یارا کر لیا جائے
 
Top