محمد عبدالرؤوف
لائبریرین
تمام اہلِ علم سے اصلاح کی درخواست ہے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
کیوں مدہوشیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
نہیں پتھر کی اس سل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
انا کے پردے یوں حائل رہے سارے سفر کے بیچ
سخن آرائیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
ذرا سی بات تھی جس پر مرا بھی ضبط ٹوٹا ہے
ابھی آدابِ محفل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
بہت کی آرزو میں سب گنوایا جو بھی حاصل تھا
گنوا کر کے بھی حاصل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
اگر طوفان آ جائے ہاں ساحل اک پڑاو ہے
مگر کیوں اپنی منزل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
وہاں تقسیم در تقسیم کا آزار تو ہو گا
جہاں اپنے ہی قاتل کو نہ ہم سمجھے نہ تم سمجھے
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
کیوں مدہوشیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
نہیں پتھر کی اس سل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
انا کے پردے یوں حائل رہے سارے سفر کے بیچ
سخن آرائیِ دل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
ذرا سی بات تھی جس پر مرا بھی ضبط ٹوٹا ہے
ابھی آدابِ محفل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
بہت کی آرزو میں سب گنوایا جو بھی حاصل تھا
گنوا کر کے بھی حاصل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
اگر طوفان آ جائے ہاں ساحل اک پڑاو ہے
مگر کیوں اپنی منزل کو نہ تم سمجھے نہ ہم سمجھے
وہاں تقسیم در تقسیم کا آزار تو ہو گا
جہاں اپنے ہی قاتل کو نہ ہم سمجھے نہ تم سمجھے