مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ یہ غزل پیش کر رہا ہوں
مری پیاسی زمیں کو پیار سے وُہ تر نہیں کرتا
وہ گو اقرار کرتا ہے مگر اکثر نہیں کرتا
اگر انساں ہے وُہ تو کیوں محبت کا نہیں قائل
اگر انساں نہیں تو کیوں زمیں پر شر نہیں کرتا
میں جب بھی عشق کرتا ہوں علیَ الاعلان کرتا ہوں
میں ایسی چوٹیوں کو بن بتائے سر نہیں کرتا
بہت مغرور ہوتے ہیں حسیں لیکن تری مانند
خدا ہو جائے، یہ کوئی بتِ کافر نہیں کرتا
نہیں لگتے ارادے اس کے میرا ساتھ دینے کے
وُہ اب تک آنکھ میں رہتا ہے، دل میں گھر نہیں کرتا
رقیبوں سے ہے کب ملنا، اسے سب یاد رہتا ہے
وفاداری کے وُہ اسباق پر ازبر نہیں کرتا
کھلا چھوڑا نہیں تم نے تو توبہ کا بھی دروازہ
کسی پر بند سارے یوں خُدا بھی در نہیں کرتا
ادب ملحوظ رکھتا ہوں وہاں دیوانگی میں بھی
میں اس سے بات کرتا ہوں تو اونچا سر نہیں کرتا
مجھے تو چودھویں کی رات بھی تاریک لگتی ہے
وُہ بھی جب تک مری جانب رُخِ انور نہیں کرتا
یہی میری روایت ہے کہ آنکھیں نم ہی رکھتا ہوں
دکھوں کو زندہ رکھتا ہوں میں تر کو بر نہیں کرتا
نگل سکتا نہ ہی اس کو اگل سکتا ہے وُہ مقبول
اگر عاشق نوالہ عشق خوں سے تر نہیں کرتا
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ یہ غزل پیش کر رہا ہوں
مری پیاسی زمیں کو پیار سے وُہ تر نہیں کرتا
وہ گو اقرار کرتا ہے مگر اکثر نہیں کرتا
اگر انساں ہے وُہ تو کیوں محبت کا نہیں قائل
اگر انساں نہیں تو کیوں زمیں پر شر نہیں کرتا
میں جب بھی عشق کرتا ہوں علیَ الاعلان کرتا ہوں
میں ایسی چوٹیوں کو بن بتائے سر نہیں کرتا
بہت مغرور ہوتے ہیں حسیں لیکن تری مانند
خدا ہو جائے، یہ کوئی بتِ کافر نہیں کرتا
نہیں لگتے ارادے اس کے میرا ساتھ دینے کے
وُہ اب تک آنکھ میں رہتا ہے، دل میں گھر نہیں کرتا
رقیبوں سے ہے کب ملنا، اسے سب یاد رہتا ہے
وفاداری کے وُہ اسباق پر ازبر نہیں کرتا
کھلا چھوڑا نہیں تم نے تو توبہ کا بھی دروازہ
کسی پر بند سارے یوں خُدا بھی در نہیں کرتا
ادب ملحوظ رکھتا ہوں وہاں دیوانگی میں بھی
میں اس سے بات کرتا ہوں تو اونچا سر نہیں کرتا
مجھے تو چودھویں کی رات بھی تاریک لگتی ہے
وُہ بھی جب تک مری جانب رُخِ انور نہیں کرتا
یہی میری روایت ہے کہ آنکھیں نم ہی رکھتا ہوں
دکھوں کو زندہ رکھتا ہوں میں تر کو بر نہیں کرتا
نگل سکتا نہ ہی اس کو اگل سکتا ہے وُہ مقبول
اگر عاشق نوالہ عشق خوں سے تر نہیں کرتا