برائے اصلاح - مسکراتے دفن ہو جائیں گے افسانوں میں ہم

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔

روز ان کو ڈھونڈتے ہیں دل کے میخانوں میں ہم
خود بھی کھو جاتے ہیں تھک کر غم کے پیمانوں میں ہم

ہاتھ میں دل کو علامت کے لیے تھامے ہوئے
نام لکھوانے چلے ہیں ان کے دیوانوں میں ہم

جب حقیقت سامنے آئے گی ان کے تب تلک
مسکراتے دفن ہو جائیں گے افسانوں میں ہم

محفلوں کو چھوڑ کر تنہائیوں میں جا بسیں
شور سے باہر نکل کر چُپ کے ویرانوں میں ہم

اے خدا تیری اگر ہم پر نہ ہوتی رحمتیں
پتھروں کو پوجتے ہوتے صنم خانوں میں ہم

شہر سے باہر نکل کر مشغلے کے طور پر
دیپ جلتے دیکھتے ہیں دور کاشانوں میں ہم

آہ! بے پرواہیاں اپنی ہمیں سب یاد ہے
چھوڑ دیتے تھے ذرا سی مے جو پیمانوں میں ہم​
 

عظیم

محفلین
روز ان کو ڈھونڈتے ہیں دل کے میخانوں میں ہم
خود بھی کھو جاتے ہیں تھک کر غم کے پیمانوں میں ہم
مطلع باقی تو درست لگ رہا ہے مگر دوسرا مصرع میں کہیں 'لیکن' کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ربط میں تھوڑی سی کمی آ رہی ہے

ہاتھ میں دل کو علامت کے لیے تھامے ہوئے
نام لکھوانے چلے ہیں ان کے دیوانوں میں ہم
علامت والی بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ شاید محبت کی نشانی کے طور پر دل کو ہاتھ میں تھامنے کی بات کر رہے ہیں آپ۔ میرے خیال میں پہلا مصرع وضاحت طلب ہے۔

جب حقیقت سامنے آئے گی ان کے تب تلک
مسکراتے دفن ہو جائیں گے افسانوں میں ہم
مجھے لگتا ہے کہ پہلا مصرع یوں زیادہ واضح رہے گا
۔اصل چہرہ سامنے آئے گا ان کا جب تلک
صرف 'حقیقت' سے بیان کمزور لگ رہا ہے

محفلوں کو چھوڑ کر تنہائیوں میں جا بسیں
شور سے باہر نکل کر چُپ کے ویرانوں میں ہم
درست

اے خدا تیری اگر ہم پر نہ ہوتی رحمتیں
پتھروں کو پوجتے ہوتے صنم خانوں میں ہم
کیا پہلے مصرع میں 'ہوتیں' کا محل نہیں؟
اس کے علاوہ 'پوجتے پھرتے' کیسا رہے گا ؟

شہر سے باہر نکل کر مشغلے کے طور پر
دیپ جلتے دیکھتے ہیں دور کاشانوں میں ہم
یہ شعر مجھے درست معلوم ہو رہا ہے۔

آہ! بے پرواہیاں اپنی ہمیں سب یاد ہے
چھوڑ دیتے تھے ذرا سی مے جو پیمانوں میں ہم​
یہاں بھی پہلے مصرع میں 'ہے' کی جگہ 'ہیں' ہونا چاہیے تھا۔
 

فلسفی

محفلین
روز ان کو ڈھونڈتے ہیں دل کے میخانوں میں ہم
خود بھی کھو جاتے ہیں تھک کر غم کے پیمانوں میں ہم
مطلع باقی تو درست لگ رہا ہے مگر دوسرا مصرع میں کہیں 'لیکن' کی کمی محسوس ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ربط میں تھوڑی سی کمی آ رہی ہے

ہاتھ میں دل کو علامت کے لیے تھامے ہوئے
نام لکھوانے چلے ہیں ان کے دیوانوں میں ہم
علامت والی بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ شاید محبت کی نشانی کے طور پر دل کو ہاتھ میں تھامنے کی بات کر رہے ہیں آپ۔ میرے خیال میں پہلا مصرع وضاحت طلب ہے۔

جب حقیقت سامنے آئے گی ان کے تب تلک
مسکراتے دفن ہو جائیں گے افسانوں میں ہم
مجھے لگتا ہے کہ پہلا مصرع یوں زیادہ واضح رہے گا
۔اصل چہرہ سامنے آئے گا ان کا جب تلک
صرف 'حقیقت' سے بیان کمزور لگ رہا ہے

محفلوں کو چھوڑ کر تنہائیوں میں جا بسیں
شور سے باہر نکل کر چُپ کے ویرانوں میں ہم
درست

اے خدا تیری اگر ہم پر نہ ہوتی رحمتیں
پتھروں کو پوجتے ہوتے صنم خانوں میں ہم
کیا پہلے مصرع میں 'ہوتیں' کا محل نہیں؟
اس کے علاوہ 'پوجتے پھرتے' کیسا رہے گا ؟

شہر سے باہر نکل کر مشغلے کے طور پر
دیپ جلتے دیکھتے ہیں دور کاشانوں میں ہم
یہ شعر مجھے درست معلوم ہو رہا ہے۔

آہ! بے پرواہیاں اپنی ہمیں سب یاد ہے
چھوڑ دیتے تھے ذرا سی مے جو پیمانوں میں ہم​
یہاں بھی پہلے مصرع میں 'ہے' کی جگہ 'ہیں' ہونا چاہیے تھا۔
بہت شکریہ عظیم بھائی، آپ کی تجاویز کی روشنی میں اسے مزید بہتر کروں گا۔ ان شاءاللہ
 

الف عین

لائبریرین
علامت والا شعر واقعی سوال پیدا کرتا ہے۔
مطلع میں لیکن 'بھی' لیکن کے معنی دے سکتا ہے اس لیے مجھے قبول ہے۔ اسی طرح حقیقت والا شعر بھی میں قبول کرتا ہوں۔ اگر شاعر کے الفاظ میں غلطی نہ ہو تو قبول کر لینا چاہیے۔
باقی عظیم کے مشوروں سے متفق ہوں
 

فلسفی

محفلین
ہاتھ میں دل کو علامت کے لیے تھامے ہوئے
نام لکھوانے چلے ہیں ان کے دیوانوں میں ہم
علامت والی بات سمجھ میں نہیں آ رہی۔ شاید محبت کی نشانی کے طور پر دل کو ہاتھ میں تھامنے کی بات کر رہے ہیں آپ۔ میرے خیال میں پہلا مصرع وضاحت طلب ہے۔

علامت والا شعر واقعی سوال پیدا کرتا ہے۔

ان میں سے کوئی مناسب رہے گا

دل گرفتارِ محبت ہاتھ سے تھامے ہوئے
نام لکھوانے چلے ہیں ان کے دیوانوں میں ہم
یا
اے دلِ بے کل سنبھل تیرے لیے شہرِ وفا
نام لکھوانے چلے ہیں ان کے دیوانوں میں ہم

میرا یہ مشورہ ہے کہ اس زمین میں مزید اشعار بھی کہیں
دل تو میرا بھی چاہ رہا تھا، کوشش کرتا ہوں۔
 

فلسفی

محفلین
سر الف عین
دو مزید اشعار، اصلاح کے لیے

روشنی کے شوق میں بے خوف شامل ہوگئے
شمع سے جلتے ہوئے مجبور پروانوں میں ہم

آزمائش میں کبھی ثابت قدم رہتے نہیں
خاک سر پر ڈالتے ہیں بس عزا خانوں میں ہم
کیا اس غزل میں "انسانوں"، "مہمانوں"، "میدانوں" وغیرہ قافیہ استعمال کرنا درست ہوگا؟ ابھی تک جو قافیہ استعمال کیا ہے ان تمام الفاظ کے آخر میں "ہ" یا "ا" مشترک ہے یعنی "افسانا"، "دیوانا"، "پیمانہ" وغیرہ۔
 

الف عین

لائبریرین
سر الف عین
دو مزید اشعار، اصلاح کے لیے

روشنی کے شوق میں بے خوف شامل ہوگئے
شمع سے جلتے ہوئے مجبور پروانوں میں ہم

آزمائش میں کبھی ثابت قدم رہتے نہیں
خاک سر پر ڈالتے ہیں بس عزا خانوں میں ہم
کیا اس غزل میں "انسانوں"، "مہمانوں"، "میدانوں" وغیرہ قافیہ استعمال کرنا درست ہوگا؟ ابھی تک جو قافیہ استعمال کیا ہے ان تمام الفاظ کے آخر میں "ہ" یا "ا" مشترک ہے یعنی "افسانا"، "دیوانا"، "پیمانہ" وغیرہ۔
نئے اشعار درست ہیں
انسانوں مہمانوں وغیرہ قوافی میں کیا قباحت ہے۔ ضرور استعمال کرو
 

محمد فہد

محفلین
عظیم بھائی آپ کی اس خوبصور غزل پر لکھوں بھی تو کیا کہوں اہل علم اور دانش مندوں کے درمیان ۔۔!
کاش میرے کم علم کے پاس بھی لفظوں کا خزانہ ہوتا اور
میں بھی آپ کی طرح شاعری کے سنہری کرنوں جیسے دلکش لفظوں سے اپنے احساسات اور جزبات غزل کی صورت میں لکھتا غزل واقعی بہت فیضیاب ہوتی ہے گر دل سے اور خلوص کے ساتھ لکھی جائے
عظیم بھائی آپ نے بہت عمدہ لکھا
اللہ تعالی آپ کو سلامت رکھے اور ہمارے دلوں میں اللہ پاک ایک دوسرے کی محبت اور احترام کو ہمیشہ قائم رکھے ۔ آمین یارب ۔۔
 
Top