برائے اصلاح - مشرکوں کی سمجھ میں یہ آتا نہیں

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔

مشرکوں کی سمجھ میں یہ آتا نہیں
ایک رب کے سوا کوئی داتا نہیں

ایک دن بھی نہ چلتا نظامِ حیات
اِس کا مالک اِسے گر چلاتا نہیں

اپنی تخلیق پر غور کر لے جو شخص
ملحدانہ خیال اُس کو بھاتا نہیں

ہر جگہ سر جھکاتا ملے گا تجھے
ایک در پر جو سر کو جھکاتا نہیں

خود کو بندر کی اولاد کہتا ہے وہ / بندروں سے نسب جوڑتا ہے وہی
منصب انسان کا جس کو بھاتا نہیں

دہریو! تم سے اچھا تو کُتّا ہی ہے
جس کا کھاتا ہے اُس کو بھلاتا نہیں

نام کے کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں
جن کا اسلام سے کوئی ناتا نہیں​
 
آخری تدوین:

فاخر

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔

مشرکوں کی سمجھ میں یہ آتا نہیں
ایک رب کے سوا کوئی داتا نہیں

ایک دن بھی نہ چلتا نظامِ حیات
اِس کا مالک اِسے گر چلاتا نہیں

اپنی تخلیق پر غور کر لے جو شخص
ملحدانہ خیال اُس کو بھاتا نہیں

ہر جگہ سر جھکاتا ملے گا تجھے
ایک در پر جو سر کو جھکاتا نہیں

خود کو بندر کی اولاد کہتا ہے وہ / بندروں سے نسب جوڑتا ہے وہی
منصب انسان کا جس کو بھاتا نہیں

دہریو! تم سے اچھا تو کُتّا ہی ہے
جس کا کھاتا ہے اُس کو بھلاتا نہیں

نام کے کچھ مسلمان ایسے بھی ہیں
جن کا اسلام سے کوئی ناطہ نہیں​
شاعرانہ تخیل کو ہم تسلیم کرتے ہیں اور اس کو سر آنکھوں پر بٹھا تے ہیں ۔ کیوں کہ شاعر کے افکار اپنے ہوتے ہیں اور اس کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت کو سراہنا یہ فن کی توقیر ہے۔ لیکن میں یہاں محترم بھائی فلسفی صاحب سے ’’چھوٹا منھ بڑی بات ‘‘ کے تحت ’اعتراض‘ کروں گا کہ مخالف کو اپنے طرزبیان سے زیر نہیں کرسکتے ؛بلکہ مخالف کو زیر کرنے کے لیے ’’ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ و جادلہم بالتی ھی احسن‘‘ کے تحت خطاب کرسکتے ہیں۔ یہی فلسفہ اسلام کا ہے۔ موسیٰ علیہ ا لسلام کو بھی ’’قولا لہ قولا لیناً‘‘ کا حکم دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ اس طرف بھی توجہ کی جائے گی ۔
شاعرانہ خیالات عمدہ ہیں بہت خوب۔۔۔البتہ طرزِ خطاب سے دبی زبان میں ’شکایت‘ ہے ۔
 

فلسفی

محفلین
شاعرانہ تخیل کو ہم تسلیم کرتے ہیں اور اس کو سر آنکھوں پر بٹھا تے ہیں ۔ کیوں کہ شاعر کے افکار اپنے ہوتے ہیں اور اس کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی عظمت کو سراہنا یہ فن کی توقیر ہے۔ لیکن میں یہاں محترم بھائی فلسفی صاحب سے ’’چھوٹا منھ بڑی بات ‘‘ کے تحت ’اعتراض‘ کروں گا کہ مخالف کو اپنے طرزبیان سے زیر نہیں کرسکتے ؛بلکہ مخالف کو زیر کرنے کے لیے ’’ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ و جادلہم بالتی ھی احسن‘‘ کے تحت خطاب کرسکتے ہیں۔ یہی فلسفہ اسلام کا ہے۔ موسیٰ علیہ ا لسلام کو بھی ’’قولا لہ قولا لیناً‘‘ کا حکم دیا گیا ہے۔ امید ہے کہ اس طرف بھی توجہ کی جائے گی ۔
شاعرانہ خیالات عمدہ ہیں بہت خوب۔۔۔البتہ طرزِ خطاب سے دبی زبان میں ’شکایت‘ ہے ۔
افتخار بھائی، دعوت والی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔
لیکن بسا اوقات آئینہ دکھانا بھی ضروری ہوتا ہے، وہ کیا ہے نہ کہ لاتوں کہ بھوت ہاتھوں سے نہیں مانتے۔ آپ تو بہتر جانتے ہیں کہ سورۃ اعراف میں کمثل الکلب کن کو کہا گیا ہے۔ ویسے عمومی طور پر آپ کی شکایت سے متفق ہوں۔
 
آخری تدوین:

فے کاف

محفلین
شرک کی مخالفت سے کہیں زیادہ نفرت پھیلاتی ہوئی غزل
بہرحال ادب میں اسے بے ادبی نہیں سمجھا جاتا۔
 

فلسفی

محفلین
کچھ لوگ شاید لاعلاج ہوتے ہیں۔ مذہب سے بیزاری اور شکوک و شبہات کو جنم دینے والے فقروں پر واہ واہ کرنے والوں( وکنا نَخُوضُ مَعَ الْخَائِضِينَ) کو جب حقیقت بتائی جاتی ہے تو بلا وجہ اپنا بلڈ پریشر ہائی کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن پاک میں مکمل ایک سورت موجود ہے۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
السلام علیکم بھائی عظیم

خود کو بندر کی اولاد کہتا ہے وہ
منصب انسان کا جس کو بھاتا نہیں

واہ

دہریو! تم سے اچھا تو کُتّا ہی ہے
جس کا کھاتا ہے اُس کو بھلاتا نہیں

خوب -

وہ جنھیں صوفی کہا جاتا ہے عجیب مخلوق خدا ہوتی ہے -ان صوفیاء کا برصغیر میں اسلام کو عام کرنے میں بڑا کردار رہا ہے -اگر کوئی صوفی منش یہ شعر کہتا تو شاید یوں کہتا ہے :

صوفیو !ہم سے اچھا تو کُتّا ہی ہے
جس کا کھاتا ہے اُس کو بھلاتا نہیں

کسی کتاب میں واقعہ پڑھا کہ چنگیز خان کے دور میں کسی تاتاری نے ایک صوفی منش بزرگ کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھا میاں بتاؤ تم اچھے ہو یا یہ کتا ؟(گلی کے کتے کی طرف اشارہ کر کے ) انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا : میرے سامنے ایک گھاٹی (موت )ہے اگر بخیریت و عافیت پار ہوگئی تو میں اچھا ہوں وگرنہ تو یہ کتا مجھ سے اچھا رہا کہ اس کا کوئی حساب کتاب نہیں -

حضرت حکیم الامّت تھانوی صاحب اور ان کی نقل کرتے ہوئے مولانا حکیم اختر صاحب (جن کے آپ معتقد ہیں ) اپنے متعلقین کو یہ جملہ رٹواتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہر روز یہ جملہ اپنے آپ سے کہہ لیا کرو :'' میں سب مسلمانوں سے کمتر ہوں فی الحال اور سب کافروں اور جانوروں سے کمتر ہوں فی المآل (خاتمے کے اعتبارسے )-

اب اشکال ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے کمتر ہوں تو سمجھ میں آتا ہے، یہ کافروں سے اور جانوروں سے کیسے کمتر ہو سکتا ہے کوئی مسلمان؟، تو جواب یہی ہے کہ یہ جملہ یقینی نہیں محض احتمالی ہے جیسا کہ اوپر بزرگ کا جواب بھی گزرا -یہ کس مسلمان کو یقین ہے کہ خاتمے کے وقت ایمان سلامت رہتا ہے کہ نہیں اور یہ گمان تو ہے کہ کافر کو ایمان نصیب ہو جائے اور اگر خدانخواستہ مسلمان کا ایمان خاتمے کے وقت صلب ہوگیا تو جانور بہتر ہوگیا - لہٰذا".......... میں سب کافروں اور جانوروں سے کمتر ہوں فی المآل (خاتمے کے اعتبارسے )"-


اور کیا حال ہے بھائی؟ اصلاح سخن میں عرصے بعد نظر آئے -میں تو سوچ رہا تھا کہ آپ سے کہوں کوئی نئی کاوش پیش کیجیے، چھوڑیے مناظرے -میں نے بھی کچھ عرصہ پہلے عاجز آکر ایک غزل لکھی تھی :

بات کرتا ہی نہیں کوئی وہ لبرل سیدھی
اونٹ رے اونٹ تری کونسی ہے کل سیدھی

جس میں اور بھی ہجویہ شعر تھے مگر پوسٹ نہیں کی کہ ان چیزوں سے کیا حاصل سوائے وقتی غصّہ ٹھنڈا کرنے کے -کیوں کسی کو گستاخیاں کرنے پہ ہم خود آمادہ کریں ؟-میں تو کہتا ہوں آیتوں اور حدیثوں کو بھی ان مناظروں میں پیش کرنا بے ادبی ہے -گویا کوئی اپنی پگڑی بچے کے قدموں میں پھینک کے کہے :" لے روند ڈال" -
 

فلسفی

محفلین
وہ جنھیں صوفی کہا جاتا ہے عجیب مخلوق خدا ہوتی ہے -ان صوفیاء کا برصغیر میں اسلام کو عام کرنے میں بڑا کردار رہا ہے -اگر کوئی صوفی منش یہ شعر کہتا تو شاید یوں کہتا ہے :

صوفیو !ہم سے اچھا تو کُتّا ہی ہے
جس کا کھاتا ہے اُس کو بھلاتا نہیں

کسی کتاب میں واقعہ پڑھا کہ چنگیز خان کے دور میں کسی تاتاری نے ایک صوفی منش بزرگ کا مذاق اڑاتے ہوئے پوچھا میاں بتاؤ تم اچھے ہو یا یہ کتا ؟(گلی کے کتے کی طرف اشارہ کر کے ) انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا : میرے سامنے ایک گھاٹی (موت )ہے اگر بخیریت و عافیت پار ہوگئی تو میں اچھا ہوں وگرنہ تو یہ کتا مجھ سے اچھا رہا کہ اس کا کوئی حساب کتاب نہیں -

حضرت حکیم الامّت تھانوی صاحب اور ان کی نقل کرتے ہوئے مولانا حکیم اختر صاحب (جن کے آپ معتقد ہیں ) اپنے متعلقین کو یہ جملہ رٹواتے تھے اور فرماتے تھے کہ ہر روز یہ جملہ اپنے آپ سے کہہ لیا کرو :'' میں سب مسلمانوں سے کمتر ہوں فی الحال اور سب کافروں اور جانوروں سے کمتر ہوں فی المآل (خاتمے کے اعتبارسے )-

اب اشکال ہوتا ہے کہ مسلمانوں سے کمتر ہوں تو سمجھ میں آتا ہے، یہ کافروں سے اور جانوروں سے کیسے کمتر ہو سکتا ہے کوئی مسلمان؟، تو جواب یہی ہے کہ یہ جملہ یقینی نہیں محض احتمالی ہے جیسا کہ اوپر بزرگ کا جواب بھی گزرا -یہ کس مسلمان کو یقین ہے کہ خاتمے کے وقت ایمان سلامت رہتا ہے کہ نہیں اور یہ گمان تو ہے کہ کافر کو ایمان نصیب ہو جائے اور اگر خدانخواستہ مسلمان کا ایمان خاتمے کے وقت صلب ہوگیا تو جانور بہتر ہوگیا - لہٰذا".......... میں سب کافروں اور جانوروں سے کمتر ہوں فی المآل (خاتمے کے اعتبارسے )"-
آہ کوئی تو ہے واقفان حال میں

اور کیا حال ہے بھائی؟ اصلاح سخن میں عرصے بعد نظر آئے -میں تو سوچ رہا تھا کہ آپ سے کہوں کوئی نئی کاوش پیش کیجیے،

ازراہ تفنن
آپ کاوش کا جو حشر کرتے ہیں اس کے بعد ہمت ہی نہیں ہوتی :)

چھوڑیے مناظرے -میں نے بھی کچھ عرصہ پہلے عاجز آکر ایک غزل لکھی تھی :

بات کرتا ہی نہیں کوئی وہ لبرل سیدھی
اونٹ رے اونٹ تری کونسی ہے کل سیدھی

جس میں اور بھی ہجویہ شعر تھے مگر پوسٹ نہیں کی کہ ان چیزوں سے کیا حاصل سوائے وقتی غصّہ ٹھنڈا کرنے کے

غصہ پہلے بہت آتا تھا، اب تو خود کو تاکید کی غرض سے لکھتے ہیں۔

کیوں کسی کو گستاخیاں کرنے پہ ہم خود آمادہ کریں ؟-میں تو کہتا ہوں آیتوں اور حدیثوں کو بھی ان مناظروں میں پیش کرنا بے ادبی ہے -گویا کوئی اپنی پگڑی بچے کے قدموں میں پھینک کے کہے :" لے روند ڈال" -

جی آپ جس نقطہ نظر سے فرما رہے ہیں بالکل درست ہے۔ لیکن اپنی بات کروں تو حوالہ قدر کرنے والوں کی نیت سے دیتا ہوں، بےقدروں کو نہیں۔ حوالہ دیتے وقت نیت یہی ہوتی ہے کہ شاید کسی کے دل پر اثر کر جائے، کیونکہ الفاظ میں تاثیر ہوتی ہے۔ اور قرآن و حدیث سے بڑھ کر تاثیر کن الفاظ میں ہوسکتی ہے؟
 
کفر و شرک پر دلیل کے ساتھ تنقید اور مباحثہ ، یہ ہمارا حق ہے ۔ بات دلیل اور حق کے ساتھ ہو ۔ ( جو زندہ ہوا وہ دلیل سے زندہ ہوا اور جو مارا گیا وہ دلیل سے مارا گیا ) گالی دینا گناہ مگر کفر و شرک کو ڈیفنڈ کرنا ہم پر لازم نہیں ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
ازراہ تفنن
آپ کاوش کا جو حشر کرتے ہیں اس کے بعد ہمت ہی نہیں ہوتی :)
:LOL:
بھائی میں شعرا کو شاعرانہ خود لذّتی سے بچانےکی کوشش کرتا ہوں -ہمارے اکثر شعراء کنوارے ہیں اوران کو آئینہ چومنے کی پرانی لت ہے اس لئے کوئی معنوی اولاد نہیں ہو پاتی -آپ تو خود جانتے ہونگے :ROFLMAO:خود لذّتی کتنی خطرناک بیماری ہے -
 

فلسفی

محفلین
:LOL:
بھائی میں شعرا کو شاعرانہ خود لذّتی سے بچانےکی کوشش کرتا ہوں -ہمارے اکثر شعراء کنوارے ہیں اوران کو آئینہ چومنے کی پرانی لت ہے اس لئے کوئی معنوی اولاد نہیں ہو پاتی -آپ تو خود جانتے ہونگے :ROFLMAO:خود لذّتی کتنی خطرناک بیماری ہے -
شاہ جی سچی بات ہے کہ واہ کرنا سب سے آسان ہوتا ہے۔ لیکن تعمیری تنقید وہی کرتا ہے جو دل کا صاف ہو۔ پچھلا مراسلہ ازراہ تفنن لکھا تھا ورنہ آپ کی تعمیری تنقید سے مجھ جیسے اور نالائقوں کا بھی بھلا ہوتا ہے۔
 

فلسفی

محفلین
کفر و شرک پر دلیل کے ساتھ تنقید اور مباحثہ ، یہ ہمارا حق ہے ۔ بات دلیل اور حق کے ساتھ ہو ۔ ( جو زندہ ہوا وہ دلیل سے زندہ ہوا اور جو مارا گیا وہ دلیل سے مارا گیا ) گالی دینا گناہ مگر کفر و شرک کو ڈیفنڈ کرنا ہم پر لازم نہیں ۔
متفق، کچھ لوگ مذہب سے بیزاری کو اظہار رائے کی آزادی اور مذہب کی حمایت میں بات کو شدت پسندی کا رنگ دے کر اپنی شدت پسندی کا اظہار فرماتے ہیں۔
 

ٹرومین

محفلین
کچھ لوگ شاید لاعلاج ہوتے ہیں۔ مذہب سے بیزاری اور شکوک و شبہات کو جنم دینے والے فقروں پر واہ واہ کرنے والوں(وکنا نخوض مع الخائضین) کو جب حقیقت بتائی جاتی ہے تو بلا وجہ اپنا بلڈ پریشر ہائی کر لیتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن پاک میں مکمل ایک سورت موجود ہے۔
وَ كُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآئِضِيْنَ
 
آخری تدوین:

فلسفی

محفلین
مولانا حکیم اختر صاحب (جن کے آپ معتقد ہیں )
موبائل پر تفصیل لکھنا ممکن نہیں تھا اس لیے اب لکھ رہا ہوں۔

حکیم صاحب رحمہ اللہ سے سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ نہ ہی ان کے طریقہ کار کے بارے میں جانتا ہوں۔ ہاں جو کچھ عقیدت ہے وہ ان کے بیانات اور ان کی مثنوی کی شرح کی وجہ سے ہے۔ البتہ آپ کے الفاظ سے ایک واقعہ یاد آ گیا کہ ایک مرتبہ ایک دوست (جو تبلیغی جماعت کے بارے میں مخلتف رائے رکھتا تھا) نے تبلیغی جماعت کے بارے میں سوال کیا کہ ان لوگوں کے بارے میں میری کیا رائے ہے؟ اس وقت اللہ پاک نے دل میں یہ بات ڈالی اور میں نے اپنے دوست سے پوچھا کہ "کیا کہتے ہیں یہ لوگ؟"، "کس کی بات کرتے ہیں؟"۔ وہ بےاختیار بولا "اللہ کی"۔ میں نے کہا کہ "ہمیں اللہ سے پیار ہے نا؟"۔ وہ کہنے لگا "جی"۔ تو میں نے کہا کہ "بس پھر جو اللہ کی بات کرے گا ہمیں اس سے پیار ہے"۔ اس کے بعد پھر ان صاحب نے کبھی اس بارے میں گفتگو نہیں فرمائی۔ الحمدللہ فرقہ، مسلک اور تعصب سے بالاتر ہو کر میں ہر اس شخص کا احترام کرتا ہوں جو اللہ پاک یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کرے۔

غالبا کسی بزرگ کے بارے میں ہے کہ وہ فرمایا کرتے تھے کہ جس منہ سے میرے محبوب (اللہ) کا نام نکلے میں اس منہ کو شیرینی سے نہ بھر دوں تو پھر اور کیا کروں۔ بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔

ان چیزوں سے کیا حاصل سوائے وقتی غصّہ ٹھنڈا کرنے کے -
سچی بات ہے شاہ جی غصے سے زیادہ افسوس ہوتا ہے۔ بحث و مباحثہ اپنی جگہ لیکن اللہ پاک سے نام لے کر دعا کرتا ہوں۔ اللہ پاک مجھے (سب سے زیادہ میں مستحق ہوں) اور ہم سب کو ہدایت عطا کرے اور اپنے نیک بندوں میں شامل فرمائے۔ آمین
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
شاہ جی سچی بات ہے کہ واہ کرنا سب سے آسان ہوتا ہے۔ لیکن تعمیری تنقید وہی کرتا ہے جو دل کا صاف ہو۔ پچھلا مراسلہ ازراہ تفنن لکھا تھا ورنہ آپ کی تعمیری تنقید سے مجھ جیسے اور نالائقوں کا بھی بھلا ہوتا ہے۔
آپ کے گمان سے اللہ ﷻمجھے نوازے اور اگر دل صاف نہ بھی ہو تو کر دے -آمین
 
Top