برائے اصلاح : میری ہوئی ہیں اس لئے ہی کرچیاں بہت

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن


میری ہوئی ہیں اس لئے ہی کرچیاں بہت
سر پر اٹھائیں ہجر کی ہیں بوریاں بہت

تتلی پسند آئی ہے بس ایک ہی مجھے
لیکن چمن میں اور بھی ہیں تتلیاں بہت

ہر وقت جس کے ساتھ میں رہتا تھا دوستو
اب ہو گئیں اس آدمی سے دوریاں بہت

پنجرے میں اک پرندے کو صیاد ڈال کر
کہتا ہے کر لیں آپ نے آزادیاں بہت

میٹھی زبان والے تجھے ہو گیا ہے کیا
لہجے میں تیرے آ گئیں ہیں تلخیاں بہت

ٹھکرا دیا کسی نے تب آیا وہ میرے پاس
جس شخص کو تھیں حسن پہ مغروریاں بہت

کنڈی لگائی ہم نے پر آئی نہ ہاتھ ایک
حالانکہ بیچ دریا کے تھیں مچھلیاں بہت

اک آدمی کی شادی کا افسوس ہے مجھے
حالانکہ شہر میں ہوئیں ہیں شادیاں بہت

حالات زندگانی کے بدلے نہ میرے دوست
کرتا رہا ہوں طفل سے مزدوریاں بہت

قسمت میں وہ نہیں تو کوئی اور ہی سہی
میثم ہمارے شہر میں ہیں لڑکیاں بہت
یاسر علی میثم
 
میری ہوئی ہیں اس لئے ہی کرچیاں بہت
سر پر اٹھائیں ہجر کی ہیں بوریاں بہت
ہجر کی بوری!!! اللہ اکبر ۔۔۔ بھائی یہ غضب نہ کرو اور ایسی تراکیب تہذیب حافی اینڈ کو کے لیے بچا رکھو!

تتلی پسند آئی ہے بس ایک ہی مجھے
لیکن چمن میں اور بھی ہیں تتلیاں بہت
شعر کو صیغۂ ماضی میں کہو تو زیادہ مناسب رہے گا۔
تتلی پسند آئی تھی بس ایک ہی مجھے
گرچہ چمن میں اور بھی تھیں تتلیاں بہت

ہر وقت جس کے ساتھ میں رہتا تھا دوستو
اب ہو گئیں اس آدمی سے دوریاں بہت
آدمی سے خیال مرد کی جانب جاتا ہے ۔۔۔ جو عشقیہ اسلوب میں اچھا نہیں لگتا، آدمی کی جگہ شخص زیادہ بہتر رہے گا!
اس شخص سے اب ہو گئیں ہیں دوریاں بہت

پنجرے میں اک پرندے کو صیاد ڈال کر
کہتا ہے کر لیں آپ نے آزادیاں بہت
آزادی کرنا کوئی محاورہ نہیں ۔۔۔

میٹھی زبان والے تجھے ہو گیا ہے کیا
لہجے میں تیرے آ گئیں ہیں تلخیاں بہت
دوسرے مصرعے میں ہیں کی جگہ کیوں کرلو تو اچھا رہے گا۔

ٹھکرا دیا کسی نے تب آیا وہ میرے پاس
جس شخص کو تھیں حسن پہ مغروریاں بہت
مغروریاں کوئی لفظ نہیں نہ ہی مغروریاں ہونا کوئی محاورہ ہے۔

کنڈی لگائی ہم نے پر آئی نہ ہاتھ ایک
حالانکہ بیچ دریا کے تھیں مچھلیاں بہت
اس شعر کو چھوڑ دو، بے مقصد قافیہ پیمائی معلوم ہوتی ہے۔

اک آدمی کی شادی کا افسوس ہے مجھے
حالانکہ شہر میں ہوئیں ہیں شادیاں بہت
یہ بھی رہنے دو۔ ایک تو پہلے مصرعے میں شادی کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا ۔۔۔ دوسرے یہ کہ اسلوب بھی کچھ مزاحیہ سا معلوم ہوتا ہے۔

حالات زندگانی کے بدلے نہ میرے دوست
کرتا رہا ہوں طفل سے مزدوریاں بہت
طفل تو بچے کو کہتے ہیں ۔۔۔ بچپن کو عالمِ طفلی کہیں گے ۔۔۔ سو طفل سے مزدوری کروائی تو جاسکتی ہے (اگرچہ غیر قانونی ہے :) ) مگر طفل سے مزدوری کی نہیں جا سکتی۔

قسمت میں وہ نہیں تو کوئی اور ہی سہی
میثم ہمارے شہر میں ہیں لڑکیاں بہت
دوسرے مصرعے کا اسلوب بڑا عامیانہ سا ہے ۔۔۔ اچھا نہیں لگتا ۔۔۔ کوئی اور گرہ لگاؤ
 

یاسر علی

محفلین
شکریہ راحیل صاحب!
آپ کی تجاویز کی روشنی میں درست کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔۔
سر جی
کچھ تراکیبیں تہذیب حافی ہی کیوں استعمال کر سکتا ہے۔۔۔

تاریک سے تاریکیاں اس طرح کیا مغرور سے مغروریاں نہیں ہو سکتا کیا ۔۔۔

جی بالکل سر طفل سے مزدوری کروانا قانونی جرم ہے لیکن مجبوراً مزدوری کرتے ہیں۔جو میں نے کئی مرتبہ دیکھا ہے ۔جیسا کئی معصوم بچے سات آٹھ سال کی عمر کے بچے جوتیاں پالش کرتے یا ہوٹلوں وغیرہ پر کام کر رہے ہوتے ہیں۔۔

اس شخص سے اب ہو گئیں ہیں دوریاں بہت
مجھے ایسا لگ رہا ہے یہ والا مصرع بحر سے آؤٹ ہو گیا ہے۔۔۔۔
 
آخری تدوین:
کچھ تراکیبیں تہذیب حافی ہی کیوں استعمال کر سکتا ہے۔۔۔
بھائی یہ جملہ طنزیہ تھا :) مقصد یہ تھا کہ اس طرح کی مضحکہ خیز تراکیب سے احتراز کرنا چاہیے۔

تاریک سے تاریکیاں اس طرح کیا مغرور سے مغروریاں نہیں ہو سکتا کیا ۔۔۔

بھائی جو صفات غیر عاقل کے مستعمل ہوں، ان کی عموما اردو کے قاعدے پر ’’یاں‘‘ یا ’’یوں‘‘ کا لاحقہ لگا کر جمع بنا لی جاتی ہے۔ جیسے تاریکی سے تاریکیاں، گہرائی سے گہرائیاں، روشنی سے روشنیاں
جو صفات عاقل کے استعمال ہوتی ہیں، ان کی جمع ’’وں‘‘ لگا کر بنائی جاتی ہے ۔۔۔ جیسے حاجت مند سے حاجت مندوں، بہرا سے بہروں، دلکش سے دلکشوں ۔۔۔ تو مغرور سے مغروروں تو بن سکتا ہے، مغروریاں نہیں۔
 
آخری تدوین:

زبیر صدیقی

محفلین
بھائی جو صفات غیر عاقل کے مستعمل ہوں، ان کی عموما اردو کے قاعدے پر ’’یاں‘‘ یا ’’یوں‘‘ کا لاحقہ لگا کر جمع بنا لی جاتی ہے۔ جیسے تاریکی سے تاریکیاں، گہرائی سے گہرائیاں، روشنی سے روشنیاں
جو صفات عاقل کے استعمال ہوتی ہیں، ان کی جمع ’’وں‘‘ لگا کر بنائی جاتی ہے ۔۔۔ جیسے حاجت مند سے حاجت مندوں، بہرا سے بہروں، دلکش سے دلکشوں ۔۔۔ تو مغرور سے مغروروں تو بن سکتا ہے، مغروریاں نہیں۔

سبحان اللّہ۔ بہت عمدگی سے سمجھایا محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
 

یاسر علی

محفلین
محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
ایک بار پھر نظر ثانی فرما دیجئے۔۔
شکریہ

یادوں کی تیری چل رہی ہیں آریاں بہت
میری ہوئی ہیں اس لئے ہی کرچیاں بہت

میں دیکھ لوں جب اس کو تو پھر مسکرا اٹھوں
پیوست گرچہ سینے میں ہیں گولیاں بہت

آنکھوں میں میرے بسنے سے پہلے تو سوچ لے
آنکھوں میں غم کی بہہ رہی ہیں وادیاں بہت

میری بھی ،تیرے گیسوئے خمدار کی طرح
الجھی ہوئیں ہیں زندگی کی گتھیاں بہت

قصٔہ غم ہمارا کسی نے نہیں سنا
اندر سے کھا گئیں ہمیں خاموشیاں بہت

جب سے ہماری زیست سے میثم جدا ہوا
کمرے میں رقص کرتیں ہیں تنہائیاں بہت
 
یادوں کی تیری چل رہی ہیں آریاں بہت
میری ہوئی ہیں اس لئے ہی کرچیاں بہت
بھائی ۔۔۔ کرچیاں شیشے کی ہوتی ہیں ۔۔۔ آری سے شیشہ کون کاٹتا ہے؟؟؟ آری سے ٹکڑے تو ہو سکتے ہیں ۔۔۔ کرچیاں نہیں ہو سکتیں۔

میں دیکھ لوں جب اس کو تو پھر مسکرا اٹھوں
پیوست گرچہ سینے میں ہیں گولیاں بہت
اگر سینے میں ’’پیوست‘‘ گولیاں ’’اُس‘‘ نے ماری تھیں تو اس بات کا تذکرہ شعر میں ہونا بھی چاہیے ورنہ یہ ایک غیر متعلق بات ہے۔

آنکھوں میں میرے بسنے سے پہلے تو سوچ لے
آنکھوں میں غم کی بہہ رہی ہیں وادیاں بہت
وادی بہہ کیسے سکتی ہے بھائی؟؟؟ اب یہ مت کہہ دینا کہ لغت میں وادی کے معنی دریا کے بھی آتے ہیں!!! سیدھا سیدھا ندّیاں کہنے میں کیا قباحت ہے؟
دوسرے یہ کہ کسی کو اپنی آنکھوں یا دل میں انسان خود بساتا ہے ۔۔۔ سو یہ بات بے معنی ہے کہ میری آنکھوں میں بسنے سے پہلے تم سوچ لو! ہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ مجھے اپنے دل یا آنکھوں میں بسانے سے پہلے سوچ لو! ۔۔۔ یا یہ کہ میرے دل یا آنکھوں میں اتر کر دیکھو وغیرہ ۔۔۔

میری بھی ،تیرے گیسوئے خمدار کی طرح
الجھی ہوئیں ہیں زندگی کی گتھیاں بہت
ٹھیک

قصٔہ غم ہمارا کسی نے نہیں سنا
اندر سے کھا گئیں ہمیں خاموشیاں بہت
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے ۔۔۔ قصۂ غم، قصّائے غم تقطیع ہو رہا ہے، جو درست نہیں۔
جب سے ہماری زیست سے میثم جدا ہوا
کمرے میں رقص کرتیں ہیں تنہائیاں بہت
میثم کے جدا ہونے کے بجائے، میثم کو مخاطب کر کے محبوب کی جدائی کا تذکرہ کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ مزید برآں، زیست سے جدا ہونا بھی محاورتاً ٹھیک نہیں ۔۔۔ اس کو ذات سے جدا ہونا کیا جا سکتا ہے۔
مثلاً
جب سے وہ میری ذات سے، میثمؔ، جدا ہوا

باقی، پچھلے مسودے میں جو اشعار ٹھیک تھے، ان کو کیوں نکال دیا؟
 

یاسر علی

محفلین
محمّد احسن سمیع :راحل:
صاحب دوبارہ نظر فرمادیں۔
شکریہ
اور "قصہ غم" کو کن اوزان پر باندھا جا سکتا ہے۔۔


غربت، ملال ،رنج، پریشانیاں بہت
اور میری زندگی میں ہیں، مایوسیاں بہت

تتلی پسند آئی تھی بس ایک ہی مجھے
گرچہ چمن میں اور بھی تھیں تتلیاں بہت

ہر وقت جس کے ساتھ ہی رہتا تھا دوستو
اب اس سے میری ہو گئیں ہیں دوریاں بہت

میٹھی زبان والے تجھے ہو گیا ہے کیا
لہجے میں تیرے آ گئیں کیوں تلخیاں بہت

آنکھوں میں تو اترنے سے پہلے ہی سوچ لے
آنکھوں میں ہیں غموں کی مری وادیاں بہت
یا
آنکھوں میں میری، درد کی ہیں وادیاں بہت

میری بھی، تیرے گیسوئے خمدار کی طرح
الجھی ہوئیں ہیں زندگی کی گتھیاں بہت

قصہ کسی نے غم کا ہمارا نہیں سنا
اندر سے کھا گئیں ہمیں خاموشیاں بہت

جب سے وہ میری ذات سے میثم جدا ہوا
کمرے میں رقص کرتیں ہیں تنہائیاں بہت
یاسر علی میثم
 
آخری تدوین:
ہر وقت جس کے ساتھ ہی رہتا تھا دوستو
اب اس سے میری ہو گئیں ہیں دوریاں بہت
دوستو بھرتی کا لفظ ہے، اس کی جگہ "میں کبھی" کر دیں.

آنکھوں میں تو اترنے سے پہلے ہی سوچ لے
آنکھوں میں ہیں غموں کی مری وادیاں بہت
یا
آنکھوں میں میری، درد کی ہیں وادیاں بہت
یہ قافیہ اس ردیف کے ساتھ مناسب نہیں لگ رہا. یا تو قافیہ بدل دیں، یا پھر شعر فی الحال نکال دیں، کسی اور غزل میں یہ مضمون لے آئیں جس کی زمین اس قافیہ کے لیے زیادہ ہموار ہو.

قصۂ غم کا کا وزن میرے خیال میں مفتَعِلن ہوگا.
 
Top