برائے اصلاح: میں جب کسی کو دیکھ لوں تو قہقہے لگاتا ہوں

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
اور دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

میں جب کسی کو دیکھ لوں تو قہقہے لگاتا ہوں
یوں اپنے خواب ٹوٹنے کے شور کو دباتا ہوں

حرام کا یہ دور ہے ، حلال میں کماتا ہوں
وُہ باپ ہوں جو روز بچے بھوکے ہی سلاتا ہوں

مری غزل کو سن کے سب ہی لوگ کہتے ہیں مجھے
یہ ان کی ہی کہانی ہے جو ان کو میں سناتا ہوں

یہ کیا ہوا ہے مجھ کو، ایک عام شخص کو میں کیوں
کبھی گلاب اور کبھی تو چاند سے ملاتا ہوں

لکیر بس فراق کی ابھر رہی ہے دن بدن
نجومیوں کو جب کبھی بھی ہاتھ میں دکھاتا ہوں

کہاں رہیں وُہ منّتیں ، مرادیں پوری ہونے کی
مزار پر میں خواہشوں کے، اب دیئے جلاتا ہوں

وُہ ہر درخت جڑ سے سوکھ جاتا ہے حُسین جب
میں جس کسی کی شاخ پر بھی آشیاں بناتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
اگر افاعیل چار بار مفاعلن ہیں تو کئی جگہ اسقاط اچھا نہیں لگ رہا، خاص کر زمین میں ہی 'تَ ہوں'
بچّ، بھوک میں سلات
تو بالکل قابل قبول نہیں
پھر کہو غزل
 

مقبول

محفلین
اگر افاعیل چار بار مفاعلن ہیں تو کئی جگہ اسقاط اچھا نہیں لگ رہا، خاص کر زمین میں ہی 'تَ ہوں'
بچّ، بھوک میں سلات
تو بالکل قابل قبول نہیں
پھر کہو غزل
محترم الف عین صاحب
سر، شُکریہ

اب بحر “مفاعلن مفاعیلن مفاعلن مفاعیلن” کر دی ہے

میں اپنے ٹوٹنے کاغم کچھ اس طرح چھپاتا ہوں
کہ جب کسی کو ملتا ہوں تو قہقہے لگاتا ہوں

وُہ جڑ سے سوکھ جاتا ہے، ہو چاہے جتنا تن آور
میں جس شجر کی ٹہنی پر بھی آشیاں بناتا ہوں

یہ پوچھتے ہیں بچے مجھ سے،لیتاکیوں نہیں رشوت؟
میں کیسا باپ ہوں جو گھر میں خالی ہاتھ آتا ہوں

وہ شخص جس کوکوئی بھی نہ آنکھ بھر کے دیکھے گا
اسے میں دن کوسورج،شب کو چاند سے ملاتا ہوں

سبھی یہ کہتے ہیں اک دن وہ غیر کا ہو جائے گا
نجومیوں کو اپنا جب بھی ہاتھ میں دکھاتا ہوں

میں کل بھی تجھ کو پانے کی تھا مانتا ہراک منت
میں آج بھی مزاروں پر جا کر دیئے جلاتا ہوں

مری غزل کو سن کرسب ہی لوگ کہتے ہیں مقبول
یہ ان کی ہی کہانی ہے جو ان کو میں سناتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
یہ افاعیل تو مستعمل بحر کے نہیں، اور ایک حرف کم کر کے فاعلن مفاعیلن دو بار کے ارکان کر دو
 
Top