عابد علی خاکسار
محفلین
الف عین صاحب
ترے بعد خود کو اکثر، یہی دکھ سنا کے روئے
نہیں ہے کوئی اب اپنا ،جو گلے لگا کے روئے
خوشی سے جلا دیا پر، مرے بعد یوں ہوا ہے
مری راکھ اپنے دل سے وہ لگالگا کے روئے
جو ملے کبھی تو ہائے، غم -ہجر کی کہانی
میں انھیں سنا کے رویا ،وہ مجھے سنا کے روئے
سر-شام ہی جلائے ،جو وصال کی خوشی میں
دم-صبح حسرتوں سے، وہ دیے بجھا کے روئے
جو لکھی تھی ان کی خاطر ،وہ ہوئے تھے سن کے برہم
مگر اب اسی غزل کو وہ سنا سنا کے روئے
مرے زخموں کا ہمیشہ، جو اڑاتے تھے تمسخر
لگے جب جگر پہ ان کے ،تو وہ پاس آ کے روئے
مراذوق ڈھونڈتے ہیں، مری آنکھیں ڈھونڈتے ہیں
سر-بزم آج عابد وہ جو رخ دکھا کے روئے
ترے بعد خود کو اکثر، یہی دکھ سنا کے روئے
نہیں ہے کوئی اب اپنا ،جو گلے لگا کے روئے
خوشی سے جلا دیا پر، مرے بعد یوں ہوا ہے
مری راکھ اپنے دل سے وہ لگالگا کے روئے
جو ملے کبھی تو ہائے، غم -ہجر کی کہانی
میں انھیں سنا کے رویا ،وہ مجھے سنا کے روئے
سر-شام ہی جلائے ،جو وصال کی خوشی میں
دم-صبح حسرتوں سے، وہ دیے بجھا کے روئے
جو لکھی تھی ان کی خاطر ،وہ ہوئے تھے سن کے برہم
مگر اب اسی غزل کو وہ سنا سنا کے روئے
مرے زخموں کا ہمیشہ، جو اڑاتے تھے تمسخر
لگے جب جگر پہ ان کے ،تو وہ پاس آ کے روئے
مراذوق ڈھونڈتے ہیں، مری آنکھیں ڈھونڈتے ہیں
سر-بزم آج عابد وہ جو رخ دکھا کے روئے