برائے اصلاح: وُہ بانہوں میں کسی کی ہے جسے بانہوں میں بھرنا تھا

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب ، محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ یہ غزل پیش کر رہا ہوں

وُہ بانہوں میں کسی کی ہے جسے بانہوں میں بھرنا تھا
یہ اس کا خواب تھا جو اس کے ہاتھوں ہی بکھرنا تھا

میں سمجھا تھا کہ ہے دھمکی فقط بس چھوڑ جانے کی
نہیں معلوم تھا ظالم نے یہ کر بھی گذرنا تھا

کہیں وُہ اور جا اترا ہے میرے بخت کی مانند
جو میرا چاند تھا، وُہ جس کو میرے گھر اترنا تھا

مجھے وُہ مل نہ سکتا تھا، لٹک جاتا میں الٹا خواہ
سکندر بھی نہیں تھا میں نہ قسمت نے سنورنا تھا

مجھے تو ڈوبنا ہی تھا میں ساحل تک پہنچتا کیا
کہ پتھر باندھ کر مجھ کو سمندر پار کرنا تھا

نہ اپنی خواہشوں کو مارتا تو اور کیا کرتا
کئی اوروں کے خوابوں میں جو مجھ کو رنگ بھرنا تھا

اگر اتنا ہی خائف تھا محبت عام ہونے سے
اچازت لے کے لوگوں سے پھر ایسا کام کرنا تھا

یہ بھی دیوار پر لکھا تھا ،ہوں گا عشق میں ناکام
مرے ماتھے پہ یہ ناسور بھی اک دن ابھرنا تھا

اگر ہے مار ڈالا اس نے تو کیا ہو گیا مقبول
چلے تھے عشق کی رَہ پر ، ہمیں آخر تو مرنا تھا
 
وُہ بانہوں میں کسی کی ہے جسے بانہوں میں بھرنا تھا
یہ اس کا خواب تھا جو اس کے ہاتھوں ہی بکھرنا تھا
مطلع کچھ الجھا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔۔۔ ایک تو پہلے مصرعے میں کسی کے بجائے کسی اور کہنا چاہیے روز مرہ کی رعایت سے، تبھی بات واضح ہوگی ۔۔۔ نیز بانہوں میں بھرنے کا عمل کس کو کرنا تھا، یہ بھی فاعل کی عدم موجودگی کے سبب واضح نہیں۔۔۔
دوسرا مصرع تو اور بھی گنجلک معلوم ہوتا ہے ۔۔۔ گویا جو کسی اور کی بانہوں میں ہے، اس کا خواب شاعر کی بانہوں میں ہونا تھا؟ مگر پہلا مصرع تو اس مفہوم کی نفی کرتا ہے ۔۔۔

مجھے وُہ مل نہ سکتا تھا، لٹک جاتا میں الٹا خواہ
سکندر بھی نہیں تھا میں نہ قسمت نے سنورنا تھا
الٹا لٹک جانا ۔۔۔ بہت ہی غیر شاعرانہ محاورہ ہے، خصوصا غزل کے ماحول میں تو بالکل بھی مناسب نہیں لگتا ۔۔۔
’’قسمت نے سنورنا۔‘‘ یہ اسلوب اردو روزمرہ کے خلاف ہے ۔۔۔ یہاں نے کے بجائے کو ہونا چاہیے ۔۔۔
دوسرے مصرعے کی بنت کچھ بہتر کی جاسکتی ہے ۔۔۔ مگر اس سے قبل پہلے مصرعے کو دیکھیں کہ الٹا لٹکنے کے علاوہ کچھ بیان ہو۔۔۔

مجھے تو ڈوبنا ہی تھا میں ساحل تک پہنچتا کیا
کہ پتھر باندھ کر مجھ کو سمندر پار کرنا تھا
سمندر کے بجائے یہاں دریا زیادہ مناسب رہے گا ۔۔۔
لیکن پتھر بندھے ہونے کی کوئی وجہ تسمیہ شعر میں نظر نہیں آتی ۔۔۔ پتھر کسی تشبیہ یا استعارے کا کام بھی نہیں دے رہے۔

نہ اپنی خواہشوں کو مارتا تو اور کیا کرتا
کئی اوروں کے خوابوں میں جو مجھ کو رنگ بھرنا تھا
اوروں کے ساتھ کئی زائد ہے، صرف وزن پورا کرنے کا کام دے رہا ہے ۔۔۔

اگر اتنا ہی خائف تھا محبت عام ہونے سے
اچازت لے کے لوگوں سے پھر ایسا کام کرنا تھا
کون خائف تھا؟ کیسا کام؟

یہ بھی دیوار پر لکھا تھا ،ہوں گا عشق میں ناکام
مرے ماتھے پہ یہ ناسور بھی اک دن ابھرنا تھا
نوشتۂ دیوار کا یہ ترجمہ محاورے کی درست ترجمانی نہیں کر رہا ۔۔۔
ماتھے پر ناسور ابھرنا بھی کوئی محاورہ نہیں ۔۔۔
 

مقبول

محفلین
بہت شُکریہ، محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
مطلع کچھ الجھا ہوا محسوس ہوتا ہے ۔۔۔ ایک تو پہلے مصرعے میں کسی کے بجائے کسی اور کہنا چاہیے روز مرہ کی رعایت سے، تبھی بات واضح ہوگی ۔۔۔ نیز بانہوں میں بھرنے کا عمل کس کو کرنا تھا، یہ بھی فاعل کی عدم موجودگی کے سبب واضح نہیں۔۔۔
دوسرا مصرع تو اور بھی گنجلک معلوم ہوتا ہے ۔۔۔ گویا جو کسی اور کی بانہوں میں ہے، اس کا خواب شاعر کی بانہوں میں ہونا تھا؟ مگر پہلا مصرع تو اس مفہوم کی نفی کرتا ہے ۔۔
ملا دشمن کی بانہوں میں، جسے بانہوں میں بھرنا تھا
ہمیشہ کی طرح ، یہ خواب بھی میرا بکھرنا تھا

خواب بھی ، میں تنافر آ رہا ہے لیکن کوئی اور کمبینیشن ٹھیک نہیں بن رہا تھا تو اس عیب کو رہنے دیا
الٹا لٹک جانا ۔۔۔ بہت ہی غیر شاعرانہ محاورہ ہے، خصوصا غزل کے ماحول میں تو بالکل بھی مناسب نہیں لگتا ۔۔۔
’’قسمت نے سنورنا۔‘‘ یہ اسلوب اردو روزمرہ کے خلاف ہے ۔۔۔ یہاں نے کے بجائے کو ہونا چاہیے ۔۔۔
دوسرے مصرعے کی بنت کچھ بہتر کی جاسکتی ہے ۔۔۔ مگر اس سے قبل پہلے مصرعے کو دیکھیں کہ الٹا لٹکنے کے علاوہ کچھ بیان ہو۔۔
جی، مجھے بھی ایسا لگا لیکن میں نے سوچا اساتذہ کی رائے جان لینی چاہیے۔ ترمیم شدہ شعر دیکھیے
نہ پا سکتا اسے چاہے بہاتا دودھ کی نہریں
سکندر بھی نہیں تھا میں نہ قسمت کو سنورنا تھا
سمندر کے بجائے یہاں دریا زیادہ مناسب رہے گا ۔۔۔
لیکن پتھر بندھے ہونے کی کوئی وجہ تسمیہ شعر میں نظر نہیں آتی ۔۔۔ پتھر کسی تشبیہ یا استعارے کا کام بھی نہیں دے رہے۔
جو میں کہنا چاہ رہا تھا وہ اس متبادل میں زیادہ واضح ہوتا ہے
انہوں نے ہی ڈبویا ہے مجھے اس زندگی کے بیچ
جنہیں لادے ہوئے مجھ کو یہ دریا پار کرنا تھا
لیکن اس شعر میں مجھے مزہ نہیں آیا تو ایک اور شعر کہا اگرچہ یہ مفہوم کے لحاظ سے بالکل مختلف ہے
کمانے کے لیے تھی مجھ کو دھرتی چھوڑنی اپنی
اُٹھا کر لاش اپنی اک سمندر پار کرنا تھا
اوروں کے ساتھ کئی زائد ہے، صرف وزن پورا کرنے کا کام دے رہا ہے ۔۔۔
نہ اپنی خواہشوں کو مارتا تو اور کیا کرتا
کہ اوروں کے بھی خوابوں میں مجھے ہی رنگ بھرنا تھا
کون خائف تھا؟ کیسا کام؟
کہیں گے لوگ کیا ، اس بات کا تھا خوف گر اتنا
تو دنیا سے اجازت لے کر ، اس کو پیار کرنا تھا
نوشتۂ دیوار کا یہ ترجمہ محاورے کی درست ترجمانی نہیں کر رہا ۔۔۔
ماتھے پر ناسور ابھرنا بھی کوئی محاورہ نہیں ۔۔۔
نہ تھا معلوم ان کو، تھے جو میرے ڈوبنے پر خوش
کہ میں سورج ہوں مجھ کو ڈوب کر پھر سے ابھرنا تھا

اضافی شعر
گیا ہے آج پھر وُہ درد کچھ دے کر نئے مجھ کو
ابھی اس کے مجھے پچھلے دیئے زخموں کو بھرنا تھا

سر الف عین ، کیا آپ رائے دینا پسند کریں
 

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین صاحب ، محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ یہ غزل پیش کر رہا ہوں

وُہ بانہوں میں کسی کی ہے جسے بانہوں میں بھرنا تھا
یہ اس کا خواب تھا جو اس کے ہاتھوں ہی بکھرنا تھا
جسے بانہوں میں بھرنا تھا.... سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ شاعر کو اپنی بانہوں میں بھرنے کی خواہش تھی! کچھ الفاظ تبدیل کر کے واضح کرنے کی کوشش کرو
میں سمجھا تھا کہ ہے دھمکی فقط بس چھوڑ جانے کی
نہیں معلوم تھا ظالم نے یہ کر بھی گذرنا تھا
فقط اور بس دونوں ایک ساتھ ضروری نہیں
میں سمجھا تھا مجھے بس چھوڑ جانے کی دھمکی ہے
نہیں/یہ کب معلوم تھا ظالم کو....
ممکن ہے
کہیں وُہ اور جا اترا ہے میرے بخت کی مانند
جو میرا چاند تھا، وُہ جس کو میرے گھر اترنا تھا
درست
مجھے وُہ مل نہ سکتا تھا، لٹک جاتا میں الٹا خواہ
سکندر بھی نہیں تھا میں نہ قسمت نے سنورنا تھا
لٹک جاتا والا فقرہ مضحکہ خیز لگ رہا ہے
قسمت نے سنورنا.. بھی غلط ہے، قسمت کو سنورنا تھا( اسی وجہ سے اوپر بھی ظالم نے کی جگہ ظالم کو کر دیا ہے)
مجھے تو ڈوبنا ہی تھا میں ساحل تک پہنچتا کیا
کہ پتھر باندھ کر مجھ کو سمندر پار کرنا تھا
ٹھیک
نہ اپنی خواہشوں کو مارتا تو اور کیا کرتا
کئی اوروں کے خوابوں میں جو مجھ کو رنگ بھرنا تھا
درست
اگر اتنا ہی خائف تھا محبت عام ہونے سے
اچازت لے کے لوگوں سے پھر ایسا کام کرنا تھا
ٹھیک
یہ بھی دیوار پر لکھا تھا ،ہوں گا عشق میں ناکام
مرے ماتھے پہ یہ ناسور بھی اک دن ابھرنا تھا
یہ بھی، . یبی تقطیع ہونا نا گوار ہے
اگر ہے مار ڈالا اس نے تو کیا ہو گیا مقبول
چلے تھے عشق کی رَہ پر ، ہمیں آخر تو مرنا تھا
ہے مار ڈالا
جو اس نے قتل کر ڈالا ہمیں تو کیا ہوا مقبول

... یہ اوپر کا پیغام کل ہی پوسٹ کیا تھا میری دانست میں، لیکن شاید نیٹ کی گڑبڑ ہو گئی کہ یہ ڈرافٹ کی صورت میں موجود رہ گیا ہے۔ پہلے اسے ہی پوسٹ کر دیتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
احسن میاں نے بھی میرے اوپر کے پیغام کے بعد، لیکن جو پوسٹ نہیں ہو سکا، کچھ مشترک باتیں لکھی تھیں.۔
مطلع میں خواب بھی کا تنافر تو دور ہو سکتا ہے
یہ میرا سپنا بھی بکھرنا تھا
لیکن بھی بکھرنا میں بھی کچھ ہلکا سا تنافر ضرور ہے
لیکن "مجھے بانہوں میں بھرنا تھا" کی وضاحت ضروری ہے، ورنہ دشمن کو اپنی بانہوں میں بھرنا تھا بھی سوچا جا سکتا ہے

نہ پا سکتا اسے چاہے بہاتا دودھ کی نہریں
.. پا سکتا تھا... کہنا تھا

دریا/سمندرپار کرنے والا کوئی شعر پسند نہیں آیا

کہ اوروں کے بھی خوابوں میں مجھے ہی رنگ بھرنا تھا
.. .خوابوں میں بھی... کہنا چاہیے تھا، ترتیب بدلنے کی کوشش کرو

اضافی شعر بھی پسند نہیں آیا، خود ہی اپنے زخم بھرے جا سکتے ہیں؟
مزید یہ کہ میری ترمیمات کو بھی مد نظر رکھو جو راحل کے پوسٹ کو دیکھنے سےپہلے میں نے کر دی تھیں
 

مقبول

محفلین
محترمین الف عین ، محمّد احسن سمیع :راحل:
بہت شُکریہ
چیزیں مکس اپ ہونے کی وجہ سے ترمیم شدہ مکمل غزل آپ کے ملاحضے کے لیے درج کر رہا ہوں

ملا ہے غیر بن کر وُہ ، جسے بانہوں میں بھرنا تھا
یا
ہوا ہے غیر وُہ جس کو مجھے بانہوں میں بھرنا تھا
ہمیشہ کی طرح میرا یہ سپنا بھی بکھرنا تھا

کہیں گے لوگ کیا ، اس بات کا تھا خوف گر اتنا
تو دنیا سے اجازت لے کر ، اس کو پیار کرنا تھا
یا
اگر اتنا ہی خائف تھا ، محبت عام ہونے سے
اجازت لے کے لوگوں سے پھر ایسا کام کرنا تھا

میں سمجھا تھا کہ بس دھمکی ہی دی ہے چھوڑ جانے کی
یہ کب معلوم تھا ظالم کو یہ کر بھی گذرنا تھا

کہیں وُہ اور جا اُترا ہے میرے بخت کی مانند
جو میرا چاند تھا، وُہ جس کو میرے گھر اترنا تھا

نہ ملنا تھاوُہ چاہے میں بہاتا دودھ کی نہریں
یا
وُہ ملتا پھر بھی نہ، چاہے بہاتا دودھ کی نہریں
سکندر بھی نہیں تھا میں نہ قسمت کو سنورنا تھا

مجھے تو ڈوبنا ہی تھا میں ساحل تک پہنچتا کیا
کہ پتھر باندھ کر مجھ کو سمندر پار کرنا تھا

نہ اپنی خواہشوں کو مارتا تو اور کیا کرتا
کہ اوروں کے جو خوابوں میں بھی مجھ کو رنگ بھرنا تھا

لکھا دیوار پر تھا یہ بھی، ہوں گا عشق میں ناکام
مرے ماتھے پہ یہ ناسور بھی اک دن ابھرنا تھا

نہ تھا معلوم ان کو، تھے جو میرے ڈوبنے پر خوش
کہ سورج ہوں میں اگلے دن مجھے پھر سے ابھرنا تھا

جو اس نے قتل کر ڈالا ہمیں تو کیا ہوا مقبول
چلے تھے عشق کی رَہ پر ، ہمیں آخر تو مرنا تھا

اضافی شعر کے دوسرے مصرعے میں تھوڑی تبدیلی کی ہے تاکہ میرے زخم بھرنے کا ابلاغ نہ ہو۔ دیکھ لیجئیے اگر قبول ہو تو۔

گیا ہے آج پھر وُہ درد کچھ دے کر نئے مجھ کو
ابھی جس کے دیئے پچھلے مرے زخموں نے بھرنا تھا
 

الف عین

لائبریرین
مطلع کا دوسرا متبادل بہتر ہے

اگر اتنا ہی خائف.... والا شعر بہتر ہے

یہ شکل بہتر ہے
اسے ملنا نہ تھا، چاہے بہاتا.....

یہ شکل بہتر ہے
لکھا دیوار پر تھا یہ کہ، ہوں گا عشق میں ناکام

آخری شعر یوں درست ہو گا
ابھی جس کے دیئے پچھلے مرے زخموں کو بھرنا تھا

باقی اشعار درست لگ رہے ہیں، محمّد احسن سمیع :راحل: کیا کہتے ہیں
 

مقبول

محفلین
مطلع کا دوسرا متبادل بہتر ہے

اگر اتنا ہی خائف.... والا شعر بہتر ہے

یہ شکل بہتر ہے
اسے ملنا نہ تھا، چاہے بہاتا.....

یہ شکل بہتر ہے
لکھا دیوار پر تھا یہ کہ، ہوں گا عشق میں ناکام

آخری شعر یوں درست ہو گا
ابھی جس کے دیئے پچھلے مرے زخموں کو بھرنا تھا

باقی اشعار درست لگ رہے ہیں، محمّد احسن سمیع :راحل: کیا کہتے ہیں
جزاک الّلہ ، سر
 
Top