فلسفی
محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔
لکھی تو جو بھی قسمت میں مصیبت وہ تو آنی تھی
مگر ہائے وہ مثلِ ہجر آفت ناگہانی تھی
انھیں خلوت میں ملنے کے لیے آنے نہیں دیتی
ابھی تک ایک بوسے کی جو دل میں بدگمانی تھی
ہٹیں چہرے سے نظریں تو بتایا دوستوں نے پھر
حسیں اس داستاں گو کی بہت اچھی کہانی تھی
ذرا سی اب جھجک اک حادثے کے بعد آئی ہے
وگرنہ تو ہماری گفتگو میں بھی روانی تھی
کبھی ہم نے تصور میں انھیں اک بار دیکھا تھا
کِھلا چہرہ حسیں آنکھیں غضب ڈھاتی جوانی تھی
وہ دیوانہ بھلے کہتے مگر پہچان تو لیتے
انھیں بزمِ رقیباں میں اگر خفت مٹانی تھی
طلسم ان کی نگاہوں کا ہمیں مسحور کرتا ہے
خود اپنے ہوش میں ورنہ کب ان کی بات مانی تھی
ارادے سج رہے تھے استقامت کے لبادے میں
حقیقت میں تو اپنی ضد کی ہم پر مہربانی تھی
نظر نیچی کیے بیٹھے ہوئے تھے سامنے لیکن
لکھی تھی صاف چہرے پر جو بات ان کو چھپانی تھی
بلادِ مصر سے جب قافلہ آیا نہیں کوئی
تو پھر بازار میں کس جنس کے باعث گرانی تھی
چراغِ آگہی وہ بجھ گیا غفلت کی آندھی سے
کہ جس کی روشنی سے پیاس اندھیروں نے بجھانی تھی
ہم اس کی جس ضروری بات کی خاطر چلے آئے
وہ اک تازہ غزل تھی، فلسفیؔ نے خود سنانی تھی
مگر ہائے وہ مثلِ ہجر آفت ناگہانی تھی
انھیں خلوت میں ملنے کے لیے آنے نہیں دیتی
ابھی تک ایک بوسے کی جو دل میں بدگمانی تھی
ہٹیں چہرے سے نظریں تو بتایا دوستوں نے پھر
حسیں اس داستاں گو کی بہت اچھی کہانی تھی
ذرا سی اب جھجک اک حادثے کے بعد آئی ہے
وگرنہ تو ہماری گفتگو میں بھی روانی تھی
کبھی ہم نے تصور میں انھیں اک بار دیکھا تھا
کِھلا چہرہ حسیں آنکھیں غضب ڈھاتی جوانی تھی
وہ دیوانہ بھلے کہتے مگر پہچان تو لیتے
انھیں بزمِ رقیباں میں اگر خفت مٹانی تھی
طلسم ان کی نگاہوں کا ہمیں مسحور کرتا ہے
خود اپنے ہوش میں ورنہ کب ان کی بات مانی تھی
ارادے سج رہے تھے استقامت کے لبادے میں
حقیقت میں تو اپنی ضد کی ہم پر مہربانی تھی
نظر نیچی کیے بیٹھے ہوئے تھے سامنے لیکن
لکھی تھی صاف چہرے پر جو بات ان کو چھپانی تھی
بلادِ مصر سے جب قافلہ آیا نہیں کوئی
تو پھر بازار میں کس جنس کے باعث گرانی تھی
چراغِ آگہی وہ بجھ گیا غفلت کی آندھی سے
کہ جس کی روشنی سے پیاس اندھیروں نے بجھانی تھی
ہم اس کی جس ضروری بات کی خاطر چلے آئے
وہ اک تازہ غزل تھی، فلسفیؔ نے خود سنانی تھی