برائے اصلاح - وہ اک تازہ غزل تھی، فلسفیؔ نے خود سنانی تھی

فلسفی

محفلین
سر الف عین اور دیگر احباب سے اصلاح کی گذارش۔

لکھی تو جو بھی قسمت میں مصیبت وہ تو آنی تھی
مگر ہائے وہ مثلِ ہجر آفت ناگہانی تھی

انھیں خلوت میں ملنے کے لیے آنے نہیں دیتی
ابھی تک ایک بوسے کی جو دل میں بدگمانی تھی

ہٹیں چہرے سے نظریں تو بتایا دوستوں نے پھر
حسیں اس داستاں گو کی بہت اچھی کہانی تھی

ذرا سی اب جھجک اک حادثے کے بعد آئی ہے
وگرنہ تو ہماری گفتگو میں بھی روانی تھی

کبھی ہم نے تصور میں انھیں اک بار دیکھا تھا
کِھلا چہرہ حسیں آنکھیں غضب ڈھاتی جوانی تھی

وہ دیوانہ بھلے کہتے مگر پہچان تو لیتے
انھیں بزمِ رقیباں میں اگر خفت مٹانی تھی

طلسم ان کی نگاہوں کا ہمیں مسحور کرتا ہے
خود اپنے ہوش میں ورنہ کب ان کی بات مانی تھی

ارادے سج رہے تھے استقامت کے لبادے میں
حقیقت میں تو اپنی ضد کی ہم پر مہربانی تھی

نظر نیچی کیے بیٹھے ہوئے تھے سامنے لیکن
لکھی تھی صاف چہرے پر جو بات ان کو چھپانی تھی

بلادِ مصر سے جب قافلہ آیا نہیں کوئی
تو پھر بازار میں کس جنس کے باعث گرانی تھی

چراغِ آگہی وہ بجھ گیا غفلت کی آندھی سے
کہ جس کی روشنی سے پیاس اندھیروں نے بجھانی تھی

ہم اس کی جس ضروری بات کی خاطر چلے آئے
وہ اک تازہ غزل تھی، فلسفیؔ نے خود سنانی تھی​
 

الف عین

لائبریرین
لکھی تو جو بھی قسمت میں مصیبت وہ تو آنی تھی
لکھی تھی جو بھی.... سے زیادہ رواں محسوس نہیں ہوتا؟
حسیں اس داستاں گو کی بہت اچھی کہانی تھی
بجائے 'اس حسیں داستان گو' کے اچھا نہیں لگتا۔ بات پر زور تو اس وقت اچھا پڑتا جب کچھ یہ بیان کیا جا سکے کہ نہ صرف داستان گو ہی حسین تھا بلکہ کہانی بھی اچھی تھی
ہم اس کی جس ضروری بات کی خاطر چلے آئے
وہ اک تازہ غزل تھی، فلسفیؔ نے خود سنانی تھی
.. کو خود سنائی تھی؟ مقطع واضح بھی نہیں
باقی درست لگ رہی ہے غزل
 

فلسفی

محفلین
شکریہ سر

لکھی تو جو بھی قسمت میں مصیبت وہ تو آنی تھی
لکھی تھی جو بھی.... سے زیادہ رواں محسوس نہیں ہوتا؟
ٹائپو تھا سر۔ تھی ہی لکھنا تھا۔
حسیں اس داستاں گو کی بہت اچھی کہانی تھی
بجائے 'اس حسیں داستان گو' کے اچھا نہیں لگتا۔ بات پر زور تو اس وقت اچھا پڑتا جب کچھ یہ بیان کیا جا سکے کہ نہ صرف داستان گو ہی حسین تھا بلکہ کہانی بھی اچھی تھی
سر 'اس حسیں داستان گو' تو بحر میں نہیں آئے گا۔ کچھ اور سوچتا ہوں۔
ہم اس کی جس ضروری بات کی خاطر چلے آئے
وہ اک تازہ غزل تھی، فلسفیؔ نے خود سنانی تھی
.. کو خود سنائی تھی؟ مقطع واضح بھی نہیں
یہ تو تخلص کے لیے زبردستی شامل کیا تھا۔ اس کا نکال ہی دیتا ہوں۔
 

فلسفی

محفلین
حسیں اس داستاں گو کی بہت اچھی کہانی تھی
بجائے 'اس حسیں داستان گو' کے اچھا نہیں لگتا۔ بات پر زور تو اس وقت اچھا پڑتا جب کچھ یہ بیان کیا جا سکے کہ نہ صرف داستان گو ہی حسین تھا بلکہ کہانی بھی اچھی تھی
سر ان میں سے کوئی مناسب ہے؟

ہٹیں چہرے سے نظریں تو بتایا دوستوں نے پھر
کہ خوش رو داستاں گو کی بہت اچھی کہانی تھی
یا
ہٹیں چہرے سے نظریں تو بتایا دوستوں نے پھر
کہ دلکش داستاں گو کی بہت اچھی کہانی تھی

ہم اس کی جس ضروری بات کی خاطر چلے آئے
وہ اک تازہ غزل تھی، فلسفیؔ نے خود سنانی تھی
.. کو خود سنائی تھی؟ مقطع واضح بھی نہیں
سر ان میں سے کوئی مقطع چل جائے گا

بڑا بے چین اک کاغذ لیے پھرتا تھا محفل میں
کوئی تازہ غزل تھی، فلسفیؔ کو جو سنانی تھی
یا
کسی رنگین کاغذ پر وہ گھر سے لکھ کے لایا تھا
سخن ور فلسفی کو جو غزل سب کو سنانی تھی
 

فلسفی

محفلین
یوں بہتر نہ ہو گا؟
کوئی تازہ غزل تھی، فلسفیؔ نے جو سنانی تھی
جی تابش بھائی میرے حساب سے بھی "نے" ہی بنتا ہے لیکن سر نے "کو" استعمال کرنے کو کہا اس لیے ایسا لکھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے شاید کہیں سر نے کہا تھا کہ "نے" پنجابی انداز بیاں ہے۔ لیکن ہماری عام بول چال میں تو "نے" استعمال ہوتا ہے۔ سر الف عین سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں اس بارے میں۔ شاید میری کج فہمی ہو کہ بات نہیں سمجھ پایا۔
 
جی تابش بھائی میرے حساب سے بھی "نے" ہی بنتا ہے لیکن سر نے "کو" استعمال کرنے کو کہا اس لیے ایسا لکھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے شاید کہیں سر نے کہا تھا کہ "نے" پنجابی انداز بیاں ہے۔ لیکن ہماری عام بول چال میں تو "نے" استعمال ہوتا ہے۔ سر الف عین سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں اس بارے میں۔ شاید میری کج فہمی ہو کہ بات نہیں سمجھ پایا۔
ادھر مصرع کی ساخت مختلف تھی۔ موجودہ صورت میں میرے خیال میں نے ہی بہتر ہے۔
کو سے مختلف مطلب نکل سکتا ہے کہ کسی نے فلسفی کو سنانی تھی۔

خیر استادِ محترم بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔ شاید میری رائے درست نہ ہو
 

فلسفی

محفلین
ادھر مصرع کی ساخت مختلف تھی۔ موجودہ صورت میں میرے خیال میں نے ہی بہتر ہے۔
کو سے مختلف مطلب نکل سکتا ہے کہ کسی نے فلسفی کو سنانی تھی۔
آپ درست فرما رہے ہیں۔ میرے سمجھنے میں ہی نقص ہے شاید۔ پہلے "فلسفی کو خود سنانی تھی" تھا اور اب "فلسفی نے جو سناںی تھی"۔ شاید "خود" کی وجہ سے سر نے کہا تھا کہ "کو" استعمال کرو۔
خیر استادِ محترم بہتر مشورہ دے سکتے ہیں۔ شاید میری رائے درست نہ ہو
جی بہتر ہے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
جی تابش بھائی میرے حساب سے بھی "نے" ہی بنتا ہے لیکن سر نے "کو" استعمال کرنے کو کہا اس لیے ایسا لکھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے شاید کہیں سر نے کہا تھا کہ "نے" پنجابی انداز بیاں ہے۔ لیکن ہماری عام بول چال میں تو "نے" استعمال ہوتا ہے۔ سر الف عین سے پوچھتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں اس بارے میں۔ شاید میری کج فہمی ہو کہ بات نہیں سمجھ پایا۔
الف عین بھئی نے بالکل درست اور مقبول اسلوب بتایا ہے ۔ "نے" کا یہ استعمال بہت عجیب ہے ۔ شاید پنجاب وغیرہ میں رائج ہو جیسے کئی دیگر محاوراتی انداز وہاں رائج ہیں اور انہیں استعمال کرنے والوں کو درست ہی لگتے ہیں ۔ جیسے غلطی لگنا سمجھ لگنا وغیرہ۔
 

فلسفی

محفلین
الف عین بھئی نے بالکل درست اور مقبول اسلوب بتایا ہے ۔ "نے" کا یہ استعمال بہت عجیب ہے ۔ شاید پنجاب وغیرہ میں رائج ہو جیسے کئی دیگر محاوراتی انداز وہاں رائج ہیں اور انہیں استعمال کرنے والوں کو درست ہی لگتے ہیں ۔ جیسے غلطی لگنا سمجھ لگنا وغیرہ۔
ممکن ہے عاطف بھائی ایسا ہی ہو۔ کیونکہ "نے" تو عام بول چال میں استعمال ہوتا ہے جیسے
"ہم نے یہ کام کرنا ہے"
جبکہ آپ اور سر کے کہنے کے مطابق جملہ یوں ہونا چاہیے
"ہم کو یہ کام کرنا ہے"

کیا میں درست سمجھا ہوں؟
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ممکن ہے عاطف بھائی ایسا ہی ہو۔ کیونکہ "نے" تو عام بول چال میں استعمال ہوتا ہے جیسے
"ہم نے یہ کام کرنا ہے"
جبکہ آپ اور سر کے کہنے کے مطابق جملہ یوں ہونا چاہیے
"ہم کو یہ کام کرنا ہے"
کیا میں درست سمجھا ہوں؟
جی ہاں بالکل ۔
ہمیں یہ کام کرنا ہے ۔درست ہے۔ ہم کو یہ کام کرنا ہے بھی ٹھیک ہے ۔ (جیسے ہم کو معلوم ہے جنت کی ۔۔۔)
ہم نے یہ کام کرنا ہے ۔غلط ہے ۔ (اگر چہ عام بول چال میں استعمال ہو تا ہو) ۔
 
جی ہاں بالکل ۔
ہمیں یہ کام کرنا ہے ۔درست ہے۔ ہم کو یہ کام کرنا ہے بھی ٹھیک ہے ۔ (جیسے ہم کو معلوم ہے جنت کی ۔۔۔)
ہم نے یہ کام کرنا ہے ۔غلط ہے ۔ (اگر چہ عام بول چال میں استعمال ہو تا ہو) ۔
البتہ 'ہم نے یہ کام کیا' درست ہے۔ یعنی ماضی کے صیغہ کے ساتھ درست ہے؟
 

الف عین

لائبریرین
'کو' سے اکثر دو مطلب نکلتے ہیں، دکن میں بول چال میں نے اور کو دونوں سے چھٹکارا پا لیا ہے
I have to pay you
کو دکن میں کہتے ہیں کہ 'میں دینا ہے' حالانکہ درست 'مجھے/ مجھ کو دینا ہے' ہی ہے جس سے یہ مطلب بھی نکل سکتا ہے کہ
You have to pay me
اسی کے لیے پنجابی کہتے ہیں 'میں نے دینا ہے'

بڑا بے چین اک کاغذ لیے پھرتا تھا محفل میں
کوئی تازہ غزل تھی، فلسفیؔ کو جو سنانی تھی
بہتر مقطع ہے، کنفیوژن دور کرنے کے لیے تخلص کو پہلے مصرع میں لاؤ جیسے
بڑا بے چین سا تھا فلسفی،.......
کوئی تازہ غزل تھی، جو کہ محفل میں سنانی تھی

دوسرے شعر میں
کہ خوش رو داستاں گو کی بہت اچھی کہانی تھی
بہتر مصرع ہے
 

فلسفی

محفلین
بڑا بے چین اک کاغذ لیے پھرتا تھا محفل میں
کوئی تازہ غزل تھی، فلسفیؔ کو جو سنانی تھی
بہتر مقطع ہے، کنفیوژن دور کرنے کے لیے تخلص کو پہلے مصرع میں لاؤ جیسے
بڑا بے چین سا تھا فلسفی،.......
کوئی تازہ غزل تھی، جو کہ محفل میں سنانی تھی

سر یہ متبادل ٹھیک ہے؟

وہ اک کاغذ لیے جو فلسفی بے چین پھرتا تھا
کوئی تازہ غزل تھی جو کہ محفل میں سنانی تھی
یا
وہ اک کاغذ لیے جو فلسفی بے چین پھرتا تھا
کوئی تازہ غزل تھی جو اسے ہم کو سنانی تھی

دوسرے شعر میں
کہ خوش رو داستاں گو کی بہت اچھی کہانی تھی
بہتر مصرع ہے
ٹھیک ہے سر۔
 

الف عین

لائبریرین
وہ اک کاغذ لیے جو فلسفی بے چین پھرتا تھا
کوئی تازہ غزل تھی جو کہ محفل میں سنانی تھی
بہتر ہے
 

فلسفی

محفلین
وہ اک کاغذ لیے جو فلسفی بے چین پھرتا تھا
کوئی تازہ غزل تھی جو کہ محفل میں سنانی تھی
بہتر ہے
شکریہ سر

لکھی تو جو بھی قسمت میں مصیبت وہ تو آنی تھی
مگر ہائے وہ مثلِ ہجر آفت ناگہانی تھی

انھیں خلوت میں ملنے کے لیے آنے نہیں دیتی
ابھی تک ایک بوسے کی جو دل میں بدگمانی تھی

ہٹیں چہرے سے نظریں تو بتایا دوستوں نے پھر
کہ خوش رو داستاں گو کی بہت اچھی کہانی تھی

ذرا سی اب جھجک اک حادثے کے بعد آئی ہے
وگرنہ تو ہماری گفتگو میں بھی روانی تھی

کبھی ہم نے تصور میں انھیں اک بار دیکھا تھا
کِھلا چہرہ حسیں آنکھیں غضب ڈھاتی جوانی تھی

وہ دیوانہ بھلے کہتے مگر پہچان تو لیتے
انھیں بزمِ رقیباں میں اگر خفت مٹانی تھی

طلسم ان کی نگاہوں کا ہمیں مسحور کرتا ہے
خود اپنے ہوش میں ورنہ کب ان کی بات مانی تھی

ارادے سج رہے تھے استقامت کے لبادے میں
حقیقت میں تو اپنی ضد کی ہم پر مہربانی تھی

نظر نیچی کیے بیٹھے ہوئے تھے سامنے لیکن
لکھی تھی صاف چہرے پر جو بات ان کو چھپانی تھی

بلادِ مصر سے جب قافلہ آیا نہیں کوئی
تو پھر بازار میں کس جنس کے باعث گرانی تھی

چراغِ آگہی وہ بجھ گیا غفلت کی آندھی سے
کہ جس کی روشنی سے پیاس اندھیروں نے بجھانی تھی

وہ اک کاغذ لیے جو فلسفیؔ بے چین پھرتا تھا
کوئی تازہ غزل تھی جو کہ محفل میں سنانی تھی​
 
Top