برائے اصلاح : وہ جو سادہ اور بڑا معصوم ہے

انس معین

محفلین
سر غزل برائے اصلاح
الف عین عظیم

وہ جو سادہ اور بہت معصوم ہے
ہر گلی اس کے ستم کی دھوم ہے

اس گلی سے جھک کے گزرو کہ یہاں
آستانائے دلِ مرحوم ہے

غیر سے ملنے چلے وہ ! اور ہمیں
کب قیامت آئے گی معلوم ہے

یہ مرا در در بھٹکنا ! بس تری
بے رخی کا اک حسیں مفہوم ہے

ہائے احمد تیری قسمت کیا کہوں
ان کا ہو کر ان سے ہی محروم ہے
 
آخری تدوین:
انس صاحب، آداب!

امید ہے آپ بخیروعافیت ہوں گے۔ یہ کیا کہ بس اپنی سنا کر رخصت ہوجاتے ہیں، دیگر لڑیوں پر بھی حاضری لگایا کریں بھائی، اسی طرح اس محفل کا آباد رہنا ممکن ہے :)

وہ جو سادہ اور بڑا معصوم ہے
ہر گلی اس کے ستم کی دھوم ہے

مطلع کا خیال عمدہ ہے، مگر تھوڑا مبہم ہے۔ غالباً آپ کی مراد یہ ہے کہ وہ جو ’’بظاہر‘‘ بڑا معصوم نظر آتا ہے! اگر ایسا ہی ہے تو پھر مطلع مزید تفصیل مانگتا ہے۔ پہلے مصرعے تو کو اگر یوں سوچا جائے تو کیسا رہے گا؟
دیکھنے میں جو بہت معصوم ہے
یا
وہ جو دکھتا سادہ اور معصوم ہے ۔۔۔ یا
جو نظر آتا بہت معصوم ہے

اس گلی سے جھک کے گزرو کہ یہاں
آستانائے دلِ مرحوم ہے

دوسرے مصرعے کی بابت تو مکرمی خلیل صاحب پہلے ہی نشاندہی فرما چکے ہیں۔ میرے ناقص خیال میں پہلے مصرعے میں بھی ’کہ‘ کو ’فا‘ کے وزن پر باندھنا مناسب نہیں ہیں۔

غیر سے ملنے چلے وہ ! اور ہمیں
کب قیامت آئے گی معلوم ہے

ان کے غیر سے ملنے جانے کا قیامت کے آنے سے تعلق واضح نہیں ہو رہا، خصوصاً جب کہ آپ پہلے بیان کے بعد ’’اور ہمیں‘‘ کہہ رہے ہیں۔


یہ مرا در در بھٹکنا ! بس تری
بے رخی کا اک حسیں مفہوم ہے

ہائے احمد تیری قسمت کیا کہوں
ان کا ہو کر ان سے ہی محروم ہے

خیال دونوں اشعار کا اچھا لگا، ماشاءاللہ۔ البتہ ایک بات میں تردد ہے۔ پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں ’’مفہوم‘‘ کا لفظ ’’نتیجہ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے شاید؟ لغوی اعتبار سے ایسا کرنا مناسب ہوگا؟ اساتذہ کی وضاحت درکار ہے۔

امید ہے آپ نے پچھلی بار کی طرح، اس دفعہ بھی میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ لکھتے رہیئے اور محفل کی رونق بڑھاتے رہیئے ۔۔۔ اور ہاں ۔۔۔ دیگر لڑیوں کو بھی شرفِ باریابی بخشئے، تاکہ محفل بھرپور طریقے سے سجی رہے۔

دعاگو،
راحلؔ
 

انس معین

محفلین
انس صاحب، آداب!

امید ہے آپ بخیروعافیت ہوں گے۔ یہ کیا کہ بس اپنی سنا کر رخصت ہوجاتے ہیں، دیگر لڑیوں پر بھی حاضری لگایا کریں بھائی، اسی طرح اس محفل کا آباد رہنا ممکن ہے :)



مطلع کا خیال عمدہ ہے، مگر تھوڑا مبہم ہے۔ غالباً آپ کی مراد یہ ہے کہ وہ جو ’’بظاہر‘‘ بڑا معصوم نظر آتا ہے! اگر ایسا ہی ہے تو پھر مطلع مزید تفصیل مانگتا ہے۔ پہلے مصرعے تو کو اگر یوں سوچا جائے تو کیسا رہے گا؟
دیکھنے میں جو بہت معصوم ہے
یا
وہ جو دکھتا سادہ اور معصوم ہے ۔۔۔ یا
جو نظر آتا بہت معصوم ہے



دوسرے مصرعے کی بابت تو مکرمی خلیل صاحب پہلے ہی نشاندہی فرما چکے ہیں۔ میرے ناقص خیال میں پہلے مصرعے میں بھی ’کہ‘ کو ’فا‘ کے وزن پر باندھنا مناسب نہیں ہیں۔



ان کے غیر سے ملنے جانے کا قیامت کے آنے سے تعلق واضح نہیں ہو رہا، خصوصاً جب کہ آپ پہلے بیان کے بعد ’’اور ہمیں‘‘ کہہ رہے ہیں۔




خیال دونوں اشعار کا اچھا لگا، ماشاءاللہ۔ البتہ ایک بات میں تردد ہے۔ پہلے شعر کے دوسرے مصرعے میں ’’مفہوم‘‘ کا لفظ ’’نتیجہ‘‘ کے معنی میں استعمال ہوا ہے شاید؟ لغوی اعتبار سے ایسا کرنا مناسب ہوگا؟ اساتذہ کی وضاحت درکار ہے۔

امید ہے آپ نے پچھلی بار کی طرح، اس دفعہ بھی میری معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ لکھتے رہیئے اور محفل کی رونق بڑھاتے رہیئے ۔۔۔ اور ہاں ۔۔۔ دیگر لڑیوں کو بھی شرفِ باریابی بخشئے، تاکہ محفل بھرپور طریقے سے سجی رہے۔

دعاگو،
راحلؔ

بہت شکریہ راحل بھائی ۔
سرکار آپ ہر دفعہ یہ برا نہ ماننے کا لکھ کر مجھے شرمندہ کرتے ہیں ۔ انشااللہ کوشش رہے گی کہ باقی مراسلوں میں بھی شرکت کروں ۔
جزاک اللہ
 

الف عین

لائبریرین
مطلع میں راحل کا مجوزہ مصرع اچھا لگا
دیکھنے میں جو....
مرقد والی خلیل میاں کی اصلاح یا صلاح بھی پسند آئی۔ لیکن 'کہ' اور 'آستانائے' کا کچھ سوچو۔
باقی اشعار مجھے تو قابلِ قبول لگ رہے ہیں
 
Top