برائے اصلاح: وہ میرے ہاتھ میں جب بھی کلائی دیتا ہے

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب
محترم محمّد احسن سمیع :راحل: صاحب
دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست ہے

وہ میرے ہاتھ میں جب بھی کلائی دیتا ہے
مجھے بہشت کا منظر دکھائی دیتا ہے

بھلے وُہ روز ہی داغِ جدائی دیتا ہے
مجھے پہ خواب تک اپنے رسائی دیتا ہے

وُہ اک تو دیتا ہے جی بھر کے حسن لوگوں کو
پھر اس کے ساتھ انہیں کج ادائی دیتا ہے

عجب سزا ہے محبت کہ کچھ پتہ ہی نہیں
وُہ قید رکھتا ہے یا پھر رہائی دیتا ہے

مرے ہی زخم کا مرہم نہیں ہے اس کے پاس
جو سارے شہر کو دل کی دوائی دیتا ہے

کچھ اس طرح سے کیا اس نے میرا دل واپس
کہ جیسے گوشت دُکاں پر قصائی دیتا ہے

سوائے خوں کی نمائش کے میرے اور ہے کیا
دکھائی جب بھی وُہ دستِ حنائی دیتا ہے

وُہ خوش نصیب ہے ، مقبول کی محبت ہے
خدا وگرنہ کب ایسے فدائی دیتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ، زیادہ اسقام نظر نہیں آتے
وہ میرے ہاتھ میں جب بھی کلائی دیتا ہے
مجھے بہشت کا منظر دکھائی دیتا ہے
.. درست

بھلے وُہ روز ہی داغِ جدائی دیتا ہے
مجھے پہ خواب تک اپنے رسائی دیتا ہے
.. دوسرے مصرعے کی روانی اچھی نہیں لگتی، 'پہ' کی وجہ سے

وُہ اک تو دیتا ہے جی بھر کے حسن لوگوں کو
پھر اس کے ساتھ انہیں کج ادائی دیتا ہے
.. پہلے مصرع کی 'اک' روانی میں مسئلہ کر رہی ہے، الفاظ بدل کر پھر کہو

عجب سزا ہے محبت کہ کچھ پتہ ہی نہیں
وُہ قید رکھتا ہے یا پھر رہائی دیتا ہے
.. واضح نہیں ہوئے دونوں مصرعے۔ کچھ پتہ ہی نہیں بے ربط، قید رکھنا محاورہ کے خلاف ہے

مرے ہی زخم کا مرہم نہیں ہے اس کے پاس
جو سارے شہر کو دل کی دوائی دیتا ہے
... ٹھیک

کچھ اس طرح سے کیا اس نے میرا دل واپس
کہ جیسے گوشت دُکاں پر قصائی دیتا ہے
.. درست اگرچہ اچھا نہیں لگ رہا، مزاحیہ لگتا ہے

سوائے خوں کی نمائش کے میرے اور ہے کیا
دکھائی جب بھی وُہ دستِ حنائی دیتا ہے
... پہلا مصرع پھر کہو الفاظ بدل کر

وُہ خوش نصیب ہے ، مقبول کی محبت ہے
خدا وگرنہ کب ایسے فدائی دیتا ہے
... یہ واضح نہیں ہوا
 

مقبول

محفلین
سر الف عین
بہت شُکریہ ۔ اب دیکھیے

وہ میرے ہاتھ میں جب بھی کلائی دیتا ہے
مجھے بہشت کا منظر دکھائی دیتا ہے

بھلے وُہ روز ہی داغِ جدائی دیتا ہے
پر اپنے خواب کی مجھ کو رسائی دیتا ہے

وُہ ایک دیتا ہے جی بھر کے حسن لوگوں کو
پھر اس کے ساتھ انہیں کج ادائی دیتا ہے

مقدِّمہ ہے محبت کا ، کیا خبر کہ مجھے
کرے گا قید وُہ یا پھر رہائی دیتا ہے

مرے ہی زخم کا مرہم نہیں ہے اس کے پاس
جو سارے شہر کو دل کی دوائی دیتا ہے

سوائے کیا ہے مرے خون کی نمائش کے
دکھائی جب بھی وُہ دستِ حنائی دیتا ہے

وُہ خوش نصیب ہے ، مقبول تُو ملا اس کو
خدا کسی کو کم ایسے فدائی دیتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
بھلے وُہ روز ہی داغِ جدائی دیتا ہے
پر اپنے خواب کی مجھ کو رسائی دیتا ہے
.. پر بھی اتنا اچھا نہیں لگتا، مگر چلے گا شاید
وہ اپنے خواب کی لیکن رسائی.....
کیسا رہے گا؟
وُہ ایک دیتا ہے جی بھر کے حسن لوگوں کو
پھر اس کے ساتھ انہیں کج ادائی دیتا ہے
... ایک دینا.... ایسا لگتا ہے کہ ایک تھپڑ دیتا ہے!
وہ اک طرف...... کے ساتھ کوشش کرو

مقدِّمہ ہے محبت کا ، کیا خبر کہ مجھے
کرے گا قید وُہ یا پھر رہائی دیتا ہے
... رہائی دی تو تب جائے گی جب پہلے سے ہی کوئی قید ہو گا۔
رکھے گا قید میں ہی یا رہائی....
ایک امکان

سوائے کیا ہے مرے خون کی نمائش کے
دکھائی جب بھی وُہ دستِ حنائی دیتا ہے
.. یہ مطلب مکمل درست ظاہر نہیں ہوتا کہ محبوب جب بھی دست حنائی دکھاتا ہے تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ وہ میرے خون کی نمائش چاہتا ہے۔ یہ مضمون دست کو فاعل بنانے سے ادا نہیں ہوتا۔ اس مضمون کو کسی اور غزل کے لئے رکھ لو الفاظ بدل کر، اس غزل میں شامل نہیں ہو سکتا یہ شعر اس زمیں میں
باقی اشعار درست ہیں
 

مقبول

محفلین
سر الف عین ، بہت مہربانی
باقی ویسے کردیا ہے جیسا آپ نے فرمایا تھا

دو اشعار اور ان کے متبادل نظرِثالث کے لیے پیشِ خدمت ہے
بھلے وُہ روز ہی داغِ جدائی دیتا ہے
مگر وُہ خواب تک اپنے رسائی دیتا ہے
یا
اگرچہ وہ مجھے داغِ جدائی دیتا ہے
وہ اپنے خواب تلک بھی رسائی دیتا ہے

وُہ اک تو دیتا ہے جی بھر کے حسن لوگوں کو
پھر اس کے ساتھ انہیں کج ادائی دیتا ہے
یا
اگرچہ عام ہے دیدار اس پری وش کا
نگاہِ شوق کو، پر کج ادائی دیتا ہے
 

مقبول

محفلین
بھلے وہ.....
اور
وہ اک......
بہتر متبادل ہیں
باقی اشعار نکال دئے گئے کیا؟
سر الف عین ، شکریہ
رہائی والا شعر آپ کی تجویز کے مطابق تبدیل کر دیا ہے۔ جبکہ دستِ حنائی والے کو نکال دیا ہے ۔ باقی اشعار آپ نے فرمایا تھا کہ درست ہو گئے ہیں
 
آخری تدوین:
Top