برائے اصلاح :وہ ہیں کہ انہیں ہم سے محبت نہیں ہوتی

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:


وہ ہیں کہ انہیں ہم سے محبت نہیں ہوتی
پھر بھی کبھی ان سے ہمیں نفرت نہیں ہوتی

خاموش ہیں ہم کیوں کہ وفا کا ہے تقاضا
یا
ہم چپ ہیں بہت کیوں کہ وفا کا ہے تقاضا
شکوے تو ہزاروں ہیں بغاوت نہیں ہوتی

دیکھیں جو انہیں خود سے گزر جاتے ہیں اکثر
اس دل کو کسی اور سے رغبت نہیں ہوتی

دن رات ملاقات ہے غیروں سے تمھاری
ہم سے ہی تمھیں ملنے کی فرصت نہیں ہوتی

اک دور تھا کرتے تھے سدا خوش سی باتیں
اب ہم سے وہ شوخی یا شرارت نہیں ہوتی

رکھتے ہیں جو باطن پہ سدا گہری نگاہیں
یا
باطن پہ جو رکھتے ہیں سدا گہری نگاہیں
ان کو کبھی ظاہر کی ضرورت نہیں ہوتی

لے جاتے عدالت میں تری سنگ دلی ہم
یہ دکھ ہے محبت کی عدالت نہیں ہوتی

جس پیار میں اخلاص کا فقدان ہو میثم
دراصل محبت وہ محبت نہیں ہوتی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اک دور تھا کرتے تھے سدا خوش سی باتیں
اب ہم سے وہ شوخی یا شرارت نہیں ہوتی
پہلا مصرعہ بحر سے خارج! شعر بھی خاص نہیں، نکالا جا سکتا ہے

ہم چپ ہیں بہت کیوں کہ وفا کا ہے تقاضا
یہ متبادل بہتر ہے، لیکن کیوں کی جگہ 'یوں' مزید بہتر لگتا ہے مجھے، کءا خیال ہے تمہارا؟
باطن والا کوئی بھی متبادل رکھو، مگر شعر ہلجا ہے، نکالا بھی جا سکتا ہے
باقی اشعار درست ہیں
 

یاسر علی

محفلین
اک دور تھا کرتے تھے سدا خوش سی باتیں
اب ہم سے وہ شوخی یا شرارت نہیں ہوتی
پہلا مصرعہ بحر سے خارج! شعر بھی خاص نہیں، نکالا جا سکتا ہے

ہم چپ ہیں بہت کیوں کہ وفا کا ہے تقاضا
یہ متبادل بہتر ہے، لیکن کیوں کی جگہ 'یوں' مزید بہتر لگتا ہے مجھے، کءا خیال ہے تمہارا؟
باطن والا کوئی بھی متبادل رکھو، مگر شعر ہلجا ہے، نکالا بھی جا سکتا ہے
باقی اشعار درست ہیں
شکریہ سر!
 
Top