برائے اصلاح و تنقید (غزل۔ 74)

امان زرگر

محفلین
۔۔۔
تیر سینے پہ سہے شوق سے خنجر کھایا
ان کے ہاتھوں کا ہر اک وار مکرّر کھایا

چاشنی وصل کی دونوں کو میسر تھی تبھی
ہجر کا زہر بھی دونوں نے برابر کھایا

قابلِ داد سبھی زخم ہیں دیوانے کے
مردِ میداں نے ہر اک وار جگر پر کھایا

مجھ کو رخصت نہ ملی درد سے پل بھر کے لئے
زندگی کو غم و اندوہ نے مل کر کھایا

آس کا کوئی دیا دل میں نہ چھوڑا روشن
اس شبِ تار نے پھر صبح منظر کھایا

دار پر جھول گئے کتنے ہی سرمست یہاں
عشقِ پرسوز میں ہر قیس نے پتھر کھایا

کس لئے دیر ہے اب حکمِ قضا میں زرگر
تیر جب ہجر کا سینے پہ سبک سر کھایا
 
آخری تدوین:

امان زرگر

محفلین
کچھ بہتری کے بعد
۔۔۔
تیر سینے پہ سہے شوق سے خنجر کھایا
ان کے ہاتھوں کا ہر اک وار مکرّر کھایا

چاشنی وصل کی دونوں کو میسر تھی تبھی
ہجر کا زہر بھی دونوں نے برابر کھایا

قابلِ داد سبھی زخم ہیں دیوانے کے
مردِ میداں نے ہر اک وار جگر پر کھایا

مجھ کو رخصت نہ ملی درد سے پل بھر کے لئے
زندگی کو غم و اندوہ نے مل کر کھایا

خوانِ دل پر ہوا ہر آس کا برتن خالی
اک شبِ تار نے یوں خواب کا منظر کھایا

دار پر جھول گئے کتنے ہی سرمست یہاں
عشقِ پرسوز میں ہر قیس نے پتھر کھایا

کس لئے دیر ہے اب حکمِ قضا میں زرگر
تیر جب ہجر کا سینے پہ سبک تر کھایا

امان زرگر
 

الف عین

لائبریرین
کیا سر کھانے والی ردیف مقرر کی ہے! ردیف تو پسند نہیں آئی لیکن غزل ٹھیک ہی ہے ۔ ردیف نبھانے کی شعوری کوشش استادی دکھانے کی کوشش لگتی ہے ۔
منظر قافیہ والے دونوں، پرانے اور نئے، اشعار سمجھ میں نہیں آ سکے۔ ان کو واضح کریں یا اس کو نکال ہی دیں
 
Top