ارشد سعد ردولوی
محفلین
غزل
کانٹا چبھا تھا پاؤں میں میرے نکل گیا
میں لڑکھڑا رہا تھا مگر پھر سنبھل گیا
کمتر تھی اسکے سامنے صحرا کی تشنگی
دریا کو ایک پیاسا سمندر نگل گیا
ہر ایک شاخِ گل پہ ، مسلّط خزاں ہوئ
موسم ہمارے شہر کا کتنا بدل گیا
غفلت بہت ہی مہنگی پڑی ہمکو دوستو !
مٹھی سے وقت ریت کی صورت پھسل گیا
معصوم کی نگاہ میں ممتا کی تھی للک
ماں سے ہوا جو دور تو بچا مچل گیا
میں نے بڑے سکوں سے ، صداقت بیان کی
لیکن ہر ایک شخص کا ، تیور بدل گیا
نفرت سے بات بن نہیں پائی جہان میں
چاہت سے سعد جبر کا پتھر پگھل گیا
ارشد سعد ردولوی
کانٹا چبھا تھا پاؤں میں میرے نکل گیا
میں لڑکھڑا رہا تھا مگر پھر سنبھل گیا
کمتر تھی اسکے سامنے صحرا کی تشنگی
دریا کو ایک پیاسا سمندر نگل گیا
ہر ایک شاخِ گل پہ ، مسلّط خزاں ہوئ
موسم ہمارے شہر کا کتنا بدل گیا
غفلت بہت ہی مہنگی پڑی ہمکو دوستو !
مٹھی سے وقت ریت کی صورت پھسل گیا
معصوم کی نگاہ میں ممتا کی تھی للک
ماں سے ہوا جو دور تو بچا مچل گیا
میں نے بڑے سکوں سے ، صداقت بیان کی
لیکن ہر ایک شخص کا ، تیور بدل گیا
نفرت سے بات بن نہیں پائی جہان میں
چاہت سے سعد جبر کا پتھر پگھل گیا
ارشد سعد ردولوی