عابد علی خاکسار
محفلین
الف عین صاحب
مت پوچھ مججے تجھ کو کس کس نے ستایا ہے
غم خوار مجھے تو نے ہر آن رلایا ہے
اب رات یہ جاتی ہے نزدیک سویرا ہے
کہہ کہہ کے یہی میں نے تاروں کو جگایا ہے
میں زیست کی بازی خود ہار گیا لیکن
اس کھیل کا فن میں نے اوروں کو سکھایا ہے
دیکھوں تو کدھر دیکھوں دیکھوں تو میں کیا دیکھوں
بس دید تری کا دھن نس میں سمایا ہے
نالاں ہوا کیوں عابد ہم سے یہ جہاں سارا
ہم نے تو محبت میں دل اپنا جلایا ہے
مت پوچھ مججے تجھ کو کس کس نے ستایا ہے
غم خوار مجھے تو نے ہر آن رلایا ہے
اب رات یہ جاتی ہے نزدیک سویرا ہے
کہہ کہہ کے یہی میں نے تاروں کو جگایا ہے
میں زیست کی بازی خود ہار گیا لیکن
اس کھیل کا فن میں نے اوروں کو سکھایا ہے
دیکھوں تو کدھر دیکھوں دیکھوں تو میں کیا دیکھوں
بس دید تری کا دھن نس میں سمایا ہے
نالاں ہوا کیوں عابد ہم سے یہ جہاں سارا
ہم نے تو محبت میں دل اپنا جلایا ہے