عابد علی خاکسار
محفلین
الف عین صاحب
قیامت کر بپا آہستہ آہستہ
حجاب اپنا ہٹا آہستہ آہستہ
مجھے پیارا لگا آہستہ آہستہ
ہوا ہے دل فدا آہستہ آہستہ
تری آواز - پا آہستہ آہستہ
چلے جیسے صبا آہستہ آہستہ
مجھے اپنا بنایا پھر چرایا دل
ہوا یہ حادثہ آہستہ آہستہ
عزیز-جاں رہا جو اک زمانے تک
برا لگنے لگا آہستہ آہستہ
حجابوں سے نکل کر ہو گئے عریاں
ہوا یہ ارتقا آہستہ آہستہ
اسے بھی غم ہے شدت سے جدائی کا
پلٹ کر جو چلا آہستہ آہستہ
گلے پہلے ہوئے پھر فاصلے آئے
ہوا ہے وہ جدا آہستہ آہستہ
مجھے قاصد کوئے دلدار کی باتیں
بتا لیکن بتا آہستہ آہستہ
مجھے لے جا رہی ہے پھر سے میخانے
یہ ساون کی گھٹا آہستہ آہستہ
مرے ساقی بڑی مدت رہا پیاسا
مجھے یوں مت پلا آہستہ آہستہ
جلانے کو مجھے اپنا بنایا تھا
کھلا یہ مدعا آہستہ آہستہ
ملی پہلے نظر پھر ہم گئے دل سے
ہوئے تجھ پر فدا آہستہ آہستہ
اکیلے کیا کروں کس کو سناوں غم
چلے ہیں ہم نوا آہستہ آہستہ
زباں چھوڑی ثقافت بیچ ڈالی
ہوئے بے دست و پا آہستہ آہستہ
بنے غاصب ،بنے رہزن ،بنے قاتل
ہمارے رینما آہستہ آہستہ
نہیں دل میں رہا اب شوق-آزادی
قفس میں دل لگا آہستہ آہستہ
نئے گل کی مہک لے کر گلستاں سے
چلی باد-صبا آہستہ آہستہ
یہ تنکوں کا جلا کر آشیاں میرا
چلے گی پھر ہوا آہستہ آہستہ
ہماری خاکساری کا نتیجہ ہے
بنے انساں خدا آہستہ آہستہ
قیامت کر بپا آہستہ آہستہ
حجاب اپنا ہٹا آہستہ آہستہ
مجھے پیارا لگا آہستہ آہستہ
ہوا ہے دل فدا آہستہ آہستہ
تری آواز - پا آہستہ آہستہ
چلے جیسے صبا آہستہ آہستہ
مجھے اپنا بنایا پھر چرایا دل
ہوا یہ حادثہ آہستہ آہستہ
عزیز-جاں رہا جو اک زمانے تک
برا لگنے لگا آہستہ آہستہ
حجابوں سے نکل کر ہو گئے عریاں
ہوا یہ ارتقا آہستہ آہستہ
اسے بھی غم ہے شدت سے جدائی کا
پلٹ کر جو چلا آہستہ آہستہ
گلے پہلے ہوئے پھر فاصلے آئے
ہوا ہے وہ جدا آہستہ آہستہ
مجھے قاصد کوئے دلدار کی باتیں
بتا لیکن بتا آہستہ آہستہ
مجھے لے جا رہی ہے پھر سے میخانے
یہ ساون کی گھٹا آہستہ آہستہ
مرے ساقی بڑی مدت رہا پیاسا
مجھے یوں مت پلا آہستہ آہستہ
جلانے کو مجھے اپنا بنایا تھا
کھلا یہ مدعا آہستہ آہستہ
ملی پہلے نظر پھر ہم گئے دل سے
ہوئے تجھ پر فدا آہستہ آہستہ
اکیلے کیا کروں کس کو سناوں غم
چلے ہیں ہم نوا آہستہ آہستہ
زباں چھوڑی ثقافت بیچ ڈالی
ہوئے بے دست و پا آہستہ آہستہ
بنے غاصب ،بنے رہزن ،بنے قاتل
ہمارے رینما آہستہ آہستہ
نہیں دل میں رہا اب شوق-آزادی
قفس میں دل لگا آہستہ آہستہ
نئے گل کی مہک لے کر گلستاں سے
چلی باد-صبا آہستہ آہستہ
یہ تنکوں کا جلا کر آشیاں میرا
چلے گی پھر ہوا آہستہ آہستہ
ہماری خاکساری کا نتیجہ ہے
بنے انساں خدا آہستہ آہستہ