برائے اصلاح و رہنمائی

الف عین صاحب

تکو گے رہ گزر تو یاد آؤں گا
ملا نہ ہم سفر تو یاد آؤں گا

یوں تو چلو گے خشک موسموں میں تم
چلوگے تربتر تو یاد آؤں گا

میں تھام لیتا تھا مگر پھر کبھی
گرو گے خاک پر تو یاد آؤں گا

مجھے تو ہنستے ہو مگر جو اوروں پر
یونہی ہنسے اگر تو یاد آؤں گا

چلے تھے میرے ساتھ تم جہاں جہاں
کرو گے پھر سفر تو یاد آؤں گا

جو بعد میرے آوروں کی خطاؤں کو
کرو گے در گزر تو یاد آؤں گا

مری کہانی پھر کسی سے بعد میں
سنو گے سر بسر تو یاد آؤں گا

جو موتی لگتا تھا وہ۔ پانی پھر
گرے گا زلف پر تو یاد آؤں گا

سنائے تھے جو شعر تیرے ساتھ میں
سنے جو پھر اگر تو یاد آؤں گا

ابھی کٹھن نہیں مگر اکیلے میں
ستائے گا سفر تو یاد آؤں گا
 

الف عین

لائبریرین
الف عین صاحب

تکو گے رہ گزر تو یاد آؤں گا
ملا نہ ہم سفر تو یاد آؤں گا
درسر
یوں تو چلو گے خشک موسموں میں تم
چلوگے تربتر تو یاد آؤں گا
یُتو.. درست نہیں
چلو گے یوں تو.... بہتر ہو گا، لیکن شعر ہی مفہوم کے اعتبار سے پسند نہیں آیا
میں تھام لیتا تھا مگر پھر کبھی
گرو گے خاک پر تو یاد آؤں گا
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے، پھر کہو "لیت تا" بھی اچھا نہیں اور تنافر بھی ہے
مجھے تو ہنستے ہو مگر جو اوروں پر
یونہی ہنسے اگر تو یاد آؤں گا
مجھے تو ہنستے ہو.... بے معنی ہے، مجھ پر ہنستے ہو ہونا چاہیے
ہنست ہو.. تقطیع بھی درست نہیں
چلے تھے میرے ساتھ تم جہاں جہاں
کرو گے پھر سفر تو یاد آؤں گا
درست
جو بعد میرے آوروں کی خطاؤں کو
کرو گے در گزر تو یاد آؤں گا
پہلا مصرع بحر میں نہیں
مری کہانی پھر کسی سے بعد میں
سنو گے سر بسر تو یاد آؤں گا
سر بسر قافیہ عجیب سا ہے۔
جو موتی لگتا تھا وہ۔ پانی پھر
گرے گا زلف پر تو یاد آؤں گا
موت لگت تا.... تقطیع درست نہیں
مفہوم بھی عجیب ہے، یاد آنے کی کیا بات ہے اس میں؟
سنائے تھے جو شعر تیرے ساتھ میں
سنے جو پھر اگر تو یاد آؤں گا
پہلے مصرع میں" تیرے سامنے" بہتر ہے
ابھی کٹھن نہیں مگر اکیلے میں
ستائے گا سفر تو یاد آؤں گا
یہ بھی رواں نہیں لگتا
مجموعی طور پر مفاعلن مفاعلن مفاعلن میں حروف کا اتنا زیادہ اسقاط اچھا نہیں، اس وجہ سے یہ غزل کامیاب نہیں
 
تکو گے رہ گزر تو یاد آؤں گا
ملا نہ ہم سفر تو یاد آؤں گا

یوں تو چلو گے خشک موسموں میں تم
چلوگے تربتر تو یاد آؤں گا

میں تھام لیتا تھا مگر جو پھر کبھی
گرو گے خاک پر تو یاد آؤں گا

یوں مجھ پہ ہنستے ہو مگر جو اوروں پر
یونہی ہنسے اگر تو یاد آؤں گا

چلے تھے میرے ساتھ تم جہاں جہاں
کرو گے پھر سفر تو یاد آؤں گا

جو بعد میرے آوروں کی خطاؤں کو
کرو گے در گزر تو یاد آؤں گا

مری کہانی پھر کسی سے بعد میں
سنو گے سر بسر تو یاد آؤں گا

جو موتی کہتا تھا وہ ہانی پھر
گرے گا زلف پر تو یاد آؤں گا

سنائے تھے جو شعر تیرے ساتھ میں
سنے جو پھر اگر تو یاد آؤں گا

ابھی کٹھن نہیں مگر اکیلے میں
ستائے گا سفر تو یاد آؤں گا
 
Top