نور وجدان

لائبریرین
محترم الف عین کی پیشِ خدمت
جناب محمد یعقوب آسی کی نظر

ایک حقیر اور ادنی کاوش ۔۔۔ بھول اور غلطیاں میرے حصے میں کچھ اچھا لگے تو وہ آپ کی ذرہ نوازی ہے ۔آپ دونوں کا حسنِ ظن ہے ورنہ میں کہاں قابل کچھ کہ سکوں ۔۔۔۔


بے انتہا جنوں ہے، اب عشق لا دوا ہے.
آئینہ بن گیا دل ، مدت کوئی رہا ہے.


آوارگی سے ہیں اب دل کے تو ربط سارے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن بھلا لگا ہے



خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
یہ بے بسی کا عالم ، اچھا سفر رہا ہے



تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
گلہ بھی میں کروں کیا، اور جگ وہ جا بسا ہے


بسمل کے رقص میں ہے یوں وجد کا سا عالم
اب روح اڑ رہی ہے اور دم نکل رہا ہے



جب بھی ہو روبرو تم، تب سانس حرف لیتے
تم یوں جو آکے جاتے یہ دل بجھا بجھا ہے









 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
وہی تمہاری پسندیدہ بحر!! اور وہی تمہاری غلطیاں۔ بات مکمل نہ کرنے کی۔
آئینہ بن گیا دل ، مدت کوئی رہا ہے.
مطلب شاید یوں ہے
آئینہ بن گیا (ہے) دل ، مدت(وں) کوئی رہا ہے۔ مدت نہیں، مدتوں کا محل ہے۔ بن گیا اور بن گیا ہے میں فرق ہے، یہاں بن گیا ہے کا محل تھا۔

یہ بے بسی کا عالم ، اچھا سفر رہا ہے
۔۔پہلا ٹکڑا کیوں؟ دونوں میں بے ربطی ہے۔ مطلب شاید یہ ہے کہ ’اس پر بھی‘ یا ’بہر حال‘

تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
گلہ بھی میں کروں کیا، اور جگ وہ جا بسا ہے
۔۔’اس کون؟ دوسرا مصرع بحر سے حارج ہے۔ ’جگ‘ کا لفظ یہاں اجنبی لگ رہا ہے۔

جب بھی ہو روبرو تم، تب سانس حرف لیتے
تم یوں جو آکے جاتے یہ دل بجھا بجھا ہے
شاید مراد یہ ہے
جب بھی ہو روبرو تم، تب سانس حرف لیتے (ہیں)
تم یوں جو آکے جاتے(ہو) یہ دل بجھا بجھا ہے
قوسین والے الفاظ کی غیر موجودگی میں یا تو بات واضح نہیں ہوتی یا صیغہ بدل جاتا ہے۔
 

شوکت پرویز

محفلین
بے انتہا جنوں ہے، اب عشق لا دوا ہے.
آئینہ بن گیا دل ، مدت کوئی رہا ہے.
ہو
اور
برسوں
۔۔۔۔۔
آوارگی سے ہیں اب دل کے تو ربط سارے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن بھلا لگا ہے
دِل کے سبھی تعلق، اب تو عجیب سے ہیں (یا: دِل کی تمام نسبت، اب تو عجیب سی ہیں)
رنجش سے محبت ہونا، اور دشمن بھلا لگنا۔ ان باتوں سے آوارگی کا تعلق؟ ہاں! یہ "عجیب" ہو سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
یہ بے بسی کا عالم ، اچھا سفر رہا ہے
کیسا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
گلہ بھی میں کروں کیا، اور جگ وہ جا بسا ہے
شکوہ
اور
وہ دور
۔۔۔۔۔۔
بسمل کے رقص میں ہے یوں وجد کا سا عالم
اب روح اڑ رہی ہے اور دم نکل رہا ہے
اِک
۔۔۔۔۔۔۔۔
جب بھی ہو روبرو تم، تب سانس حرف لیتے
تم یوں جو آکے جاتے یہ دل بجھا بجھا ہے

جب تم تھے ساتھ میرے، اک نور چار سُو تھا
جب سے جُدا ہوئے ہو، دِل تک (یا: بھی) بجھا بجھا ہے

:)
 

نور وجدان

لائبریرین
شکریہ اصلاحات کا ۔۔کوشش کروں گی بات مکمل کروں بس آپ کا نظرِ کرم رہے ۔۔۔سیکھتے سکھتے ہی سیکھ جاؤں گی ۔۔۔آخر کو شاگرد آپ کی ۔۔۔ میں نے آپ کے کہنے کے مطابق تبدیلیاں کی ہیں ۔۔ ان پر نظر کر لیں

بے انتہا جنوں ہے، اب عشق لا دوا ہے.
آئینہ ہو گیا ہے دل ،برسوں کوئی رہا ہے
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
آوارگی سے اب تو ہیں دل کے ربط سارے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن بھلا لگا ہے
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
یہ بے بسی کا عالم ، کیسا سفر رہا ہے
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
شکوہ بھی کروں کیا، وہ دور جا بسا ہے
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
بسمل کے رقص میں ہے اِک وجد کا سا عالم
اب روح اڑ رہی ہے اور دم نکل رہا ہے
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷
تم رو برو ہو میرے ، اک نور چار سو ہے
جب سے جُدا ہوئے ہو، دِل تک بجھا بجھا ہے

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷​
محترم شوکت میں نے آپ کی دی ہوئی اصلاحات اپنائی ۔۔ بہت شکریہ آپ کا ۔۔۔کچھ لفظوں کا ہیر پھیر بھی سکھا رہے ہے کہ شاعری میں لفظ کی نشت اور برخاست کا علم مشق سے آتا ہے ۔۔۔۔ آوارگی سے مراد ' بربادی ، پریشان حالی ، ویرانی کے ہیں ۔۔ اردو لغت سے دیکھا تھا ۔۔۔ میں نے اس کو اس معانی میں باندھا ہے ۔۔۔ اب ذرا ملاحظہ کریں
 
آخری تدوین:

شوکت پرویز

محفلین
بے انتہا جنوں ہے، اب عشق لا دوا ہے.
آئینہ ہو گیا ہے دل ،برسوں کوئی رہا ہے​
یہ ٹکڑا بحر سے کچھ نِکل سا گیا ہے، آپ خود تقطیع کرنے کی کوشش کریں: مفعول فاعلاتن
۔۔۔۔۔
تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
شکوہ بھی کروں کیا، وہ دور جا بسا ہے​
شکوہ بھی "میں" کروں کیا، درست تقطیع میں آتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم رو برو ہو میرے ، اک نور چار سو ہے
جب سے جُدا ہوئے ہو، دِل تک بجھا بجھا ہے​
بندہ روبرو ہے یا جُدا؟؟؟ آپ نے تو دونوں ہی کہہ دیا ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
بے انتہا جنوں ہے، اب عشق لا دوا ہے.
آئینہ دل بنا ہے ،برسوں کوئی رہا ہے۔
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

آوارگی سے اب تو ہیں دل کے ربط سارے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن بھلا لگا ہے

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷


خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
یہ بے بسی کا عالم ، کیسا سفر رہا ہے

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
شکوہ بھی میں کروں کیا، وہ دور جا بسا ہے

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

بسمل کے رقص میں ہے اِک وجد کا سا عالم
اُڑ روح بھی رہی ہے دم ہے کہ نکل چلا ہے

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

تم روبرو ہوئے جب،حرفوں نے سانس لیا ہے


آکر نہ جاؤ اب تم بجھنے یہ دل لگا ہے

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷


اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعراس کی خاطربرسوں میں نے کہا ہے

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

اب چیک کریں ۔۔ اللہ کے فضل سے ٹھیک ہوگا ۔۔



 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اللہ کے فضل سے یہ تینوں اشعار بحر سے خارج ہو گئے ہیں۔ تقطیع کر کے دیکھیں۔
سمل کے رقص میں ہے اِک وجد کا سا عالم
اُڑ روح بھی رہی ہے دم ہے کہ نکل چلا ہے

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

تم روبرو ہوئے جب،حرفوں نے سانس لیا ہے

آکر نہ جاؤ اب تم بجھنے یہ دل لگا ہے

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعراس کی خاطربرسوں میں نے کہا ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
بلکل ٹھیک کہا۔شعر تبدیل کرکے تنقیدی نظر سے دیکھا ہی نہیں ۔اب خود پر ہنسی آتی ہے ۔ میں بحر میں کرتی ہوں ۔۔ذرا دیکھیں محترم بابا جان !!!
بسمل کے رقص میں ہے اِک وجد کا سا عالم
اُڑ روح بھی رہی ہے دم ہے کہ نکل چلا ہے

بسمل ک÷ رقص میں ہے ÷ اک وجد ÷ کا س عالم
اڑ روح÷ بی ر ہی ہے÷ دم ہے کہ ÷ ن کل چ لا ہے
÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

تم روبرو ہوئے جب،حرفوں نے سانس لیا ہے
تم رو ب÷ رو ہ ئے جب÷ حرفوں ن÷ ساس ل یا ہے
آکر نہ جاؤ اب تم بجھنے یہ دل لگا ہے
آکر نہ÷ جاء اب تم÷ بجھنے یہ÷ دل لگا ہے

÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷÷

اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعراس کی خاطربرسوں میں نے کہا ہے

اے نور (مفعول) کاش ہوتا (فاعلاتن) ذوقے سُ (مفعول) خن ا سے بھی ( فاعلاتن)
ہر شعر(مفعول) اس کی خاطر (فاعلاتن) برسوں میں (مفعول) نے ک ہا ہے (فاعلاتن)
اس میں غلطی بتا دیں ۔۔مجھ سے غلط ہوئی تقطیع کیا​
 
آخری تدوین:

نور وجدان

لائبریرین
بے انتہا جنوں ہے، اب عشق لا دوا ہے.
آئینہ دل بنا ہے ،برسوں کوئی رہا ہے۔



آوارگی سے اب تو ہیں دل کے ربط سارے
رنجش سے ہے محبت ، دشمن بھلا لگا ہے


بسمل کے رقص میں ہے اِک وجد کا سا عالم
اب روح اڑ رہی ہے دم بھی نکل رہا ہے



تھا قرض جاں پہ اس کی ، وہ واجِبُ الاَدا ہے
شکوہ بھی میں کروں کیا، وہ دور جا بسا ہے



جاتے ہوئے بھی مڑ کر اس نے مجھے نہ دیکھا
آنسو کوئی نہ ٹپکا بس دل بھرا بھرا ہے



خاموشی میرا مسلک، ماہر وہ گفتگو میں
یہ بے بسی کا عالم ، کیسا سفر رہا ہے


تم روبرو ہوئے جب، ہیں حرف سانس لیتے
آکر نہ جاؤ اب تم بجھنے یہ دل لگا ہے



اےنورؔ کاش ہوتا ذوقِ سُخن اسے بھی
ہر شعر جس کی خاطر برسوں میں نے کہا ہے
 
آخری تدوین:

Mystic Enigma

محفلین
مجھے سمجھ نہ آئے سب شاعر یہاں. میں نے ایک شعر بنایا ہے. فاعلات کیا ہیں کتاب دے دی جب اس کو پڑھا کچھ سمجھ نہ آیا ہم سمجھے شاعری آسان ہے کتاب ایسی تھی کوئی سائنس فاروق احمد بھٹی آسان کتاب دیں. کیا ہم بھی شاعری کر پائیں گے. وہ مرار کیا ہ۔. وتد مفروع کیا ہے وتد مفرق. یہ نام ہی مشکل
 
اعجاز عبید صاحب اور شوکت پرویز صاحب کے ارشادات پر توجہ دیجئے۔ انہوں نے بہت مناسب کہا ہے، میں شاید ایسے بات نہ کر سکوں۔
 

ابن رضا

لائبریرین
مجھے سمجھ نہ آئے سب شاعر یہاں. میں نے ایک شعر بنایا ہے. فاعلات کیا ہیں کتاب دے دی جب اس کو پڑھا کچھ سمجھ نہ آیا ہم سمجھے شاعری آسان ہے کتاب ایسی تھی کوئی سائنس فاروق احمد بھٹی آسان کتاب دیں. کیا ہم بھی شاعری کر پائیں گے. وہ مرار کیا ہ۔. وتد مفروع کیا ہے وتد مفرق. یہ نام ہی مشکل
ساری کتاب ایک دن میں پڑھ کر سمجھنے کی کوشش کریں گی تو پھر یہی ہو گا کہ سب آسان چیزیں بھی مشکل ہی لگیں گی۔ تھوڑا تھوڑا پڑھیں، سمجھیں ، سوال کریں اور پھر مشق کریں تو منزل آسان ہو جائے گی
 
مجھے سمجھ نہ آئے سب شاعر یہاں. میں نے ایک شعر بنایا ہے. فاعلات کیا ہیں کتاب دے دی جب اس کو پڑھا کچھ سمجھ نہ آیا ہم سمجھے شاعری آسان ہے کتاب ایسی تھی کوئی سائنس فاروق احمد بھٹی آسان کتاب دیں. کیا ہم بھی شاعری کر پائیں گے. وہ مرار کیا ہ۔. وتد مفروع کیا ہے وتد مفرق. یہ نام ہی مشکل
آسان عروض کے دس سبق
 

الف عین

لائبریرین
جو سرخ حروف کئے ہیں، ان کی تقطیع درست نہیں۔
محض
دم ہے ن، مفعول، کل چلا ہے، فاعلاتن
اسی طرح محض ’حرفوں نے سانس یا ہے‘ تقطیع ہو رہا ہے
حرفو ن۔ مفعول، ساسیا ہے، فاعلاتن
مقطع
برسوم، مفعول، نے کہا ہے‘ فاعلاتن، یہاں ’میں نے‘ محض ’مَ نے‘ تقطیع ہو رہا ہے
ویسے غزل میں درستی کر دی ہے تم نے۔ لیکن پانچواں شعر حسن مطلع ہے، اسے اوپر کی نشست دو!!
تقطیع میں درست ہونے کے باوجود مفہوم، وضاحت اور روانی کے لحاظ سے اب بھی کمیاں ہیں۔
 
Top