مقبول
محفلین
محترم الف عین صاحب ، دیگر استذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ یہ غزل پیشِ خدمت ہے
چاہے تنکے کا سہی، کچھ تو سہارا ہوتا
ظلم کے بحر کا کوئی تو کنارہ ہوتا
موت کا دُکھ نہیں غم ہے تو فقط اتنا ہے
خود محافظ نے مرے، مجھ کو نہ مارا ہوتا
لڑ کے میدان میں مرتا تو کوئی بات بھی تھی
بن لڑے میرا سپاہی تو نہ ہارا ہوتا
کاش قانون پہ بھی کرتے عمل لوگ سبھی
کاش آئین پہ چلتا ہر ادارہ ہوتا
کاش قاضی بھی یہاں اپنا علَم رکھتا بلند
کاش حاکم کو بھی انصاف گوارا ہوتا
اے خدا شہر میں پھرتے ہیں ابو جہل بہت
کچھ کے سینوں میں تو کچھ فہم اتارا ہوتا
عقل دشمن تھے مرے شہر کے باسی، مقبول
ایسے لوگوں میں کہاں میرا گذارا ہوتا
چاہے تنکے کا سہی، کچھ تو سہارا ہوتا
ظلم کے بحر کا کوئی تو کنارہ ہوتا
موت کا دُکھ نہیں غم ہے تو فقط اتنا ہے
خود محافظ نے مرے، مجھ کو نہ مارا ہوتا
لڑ کے میدان میں مرتا تو کوئی بات بھی تھی
بن لڑے میرا سپاہی تو نہ ہارا ہوتا
کاش قانون پہ بھی کرتے عمل لوگ سبھی
کاش آئین پہ چلتا ہر ادارہ ہوتا
کاش قاضی بھی یہاں اپنا علَم رکھتا بلند
کاش حاکم کو بھی انصاف گوارا ہوتا
اے خدا شہر میں پھرتے ہیں ابو جہل بہت
کچھ کے سینوں میں تو کچھ فہم اتارا ہوتا
عقل دشمن تھے مرے شہر کے باسی، مقبول
ایسے لوگوں میں کہاں میرا گذارا ہوتا
آخری تدوین: