برائے اصلاح چند مزید اشعار

اگرچہ اب تو تعلق نہیں رہا پھر بھی​
تو چاہتا ہے مجھے، یہ گمان میرا ہے​
نکھر گیا ہے ترا گھر تو دُھل کے بارش سے​
مگر گِرا ہے جو کچا مکان میرا ہے​
کسی کو میری خوشی میرے غم کی فکر نہیں​
سب اپنی دُھن میں ہیں کس کو دھیان میرا ہے​
میں چاہے آبلہ پا ہی، شکستہ دل ہی سہی​
پر اب بھی حوصلہ دیکھو جوان میرا ہے​
نہیں رہا ہے خود اپنے پہ اختیار احمد​
میں سوچتا تھا کہ سارا جہان میرا ہے​
 
اگرچہ اب تو تعلق نہیں رہا پھر بھی​
تو چاہتا ہے مجھے، یہ گمان میرا ہے​
نکھر گیا ہے ترا گھر تو دُھل کے بارش سے​
مگر گِرا ہے جو کچا مکان میرا ہے​
کسی کو میری خوشی میرے غم کی فکر نہیں​
سب اپنی دُھن میں ہیں کس کو دھیان میرا ہے
میں چاہے آبلہ پا ہی، شکستہ دل ہی سہی​
پر اب بھی حوصلہ دیکھو جوان میرا ہے​
نہیں رہا ہے خود اپنے پہ اختیار احمد​
میں سوچتا تھا کہ سارا جہان میرا ہے​

بھئی یہ سرخ مصرع دیکھیں جو وزن میں نہیں۔
دھیان کو ”مکان“ کے برابر نہیں بلکہ ”پان“ کے برابر پڑہتے ہیں۔ یا پھر ”دان“ کے برابر۔ ;)
 

الف عین

لائبریرین
دھیان کے بارے میں میں متفق ہوں بسمل سے۔ اس کو یوں کر دیں۔
سب اپنی دھن میں مگن، کس کو دھیان۔۔
اس کے علاوہ ’پر اب‘ ’چاہے‘ اور دو بار ’ہی‘ کی وجہ سے یہاں بیانیہ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔ شکستہ دل‘ بھی حوصلے سے مطابقت نہیں رکھتا۔​
میں چاہے آبلہ پا ہی، شکستہ دل ہی سہی​
پر اب بھی حوصلہ دیکھو جوان میرا ہے​
اس کو کچھ اس طرح کیا جا سکتا ہے:​
ہزار آبلہ پا ہوں، تھکا ہوا بھی سہی،​
مگر یہ حوصلہ دیکھو جوان میرا ہے​
 
چلیے یہ بات اب سے آئندہ دھیان میں رہے گی انشاءاللہ۔۔;)
مزمل شیخ اور محترم اعجاز عبید صاحب کا تہہ دل سے مشکور ہوں۔۔
شکریہ کا نذرانہ قبول کیجیے گا۔۔۔
 
Top