برائے اصلاح :کبھی آنکھوں کبھی سینے سے لگا رکھتا ہوں

یاسر علی

محفلین
الف عین
محمّد احسن سمیع :راحل:
محمد خلیل الرحمٰن


کبھی آنکھوں کبھی سینے سے لگا رکھتا ہوں
آپ کے خط میں کتابوں میں چھپا رکھتا ہوں

ساتھ دیتا ہوں مصیبت میں سبھی یاروں کا
میں ہر اک موڑ پہ دل اپنا بڑا رکھتا ہوں

تتلیاں روز تبھی گھر میں چلی آتی ہیں
میں جو گلدان میں کچھ پھول کھلا رکھتا ہوں

جوق درجوق چلے آتے ہیں پروانے، میں
شب کو دیوار پہ جب دیپ جلا رکھتا ہوں

گھر میں آئے مرے دستک اسے دینی نہ پڑے
بس یہی سوچ کے دروازہ کھلا رکھتا ہوں

کبھی تم کو میں بھلا دوں یہ بھی ہو سکتا ہے
اس لئے زخم محبت کا ہرا رکھتا ہوں

رنج سہتا ہوں مگر غم نہیں دیتا کسی کو
کیوں کہ میں دل میں بہت خوفِ خدا رکھتا ہوں

پیار کی اینٹوں سے تعمیر محل کر کے میں
اس کو رنگین سے لفظوں سے سجا رکھتا ہوں

مجھ کو معلوم ہے پوری نہیں ہونی میثم
حسرَتِ دل تبھی دل ہی میں دبا رکھتا ہوں۔
یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
کبھی آنکھوں کبھی سینے سے لگا رکھتا ہوں
آپ کے خط میں کتابوں میں چھپا رکھتا ہوں
.. دوسرے مصرعے میں پہلا 'میں' واحد متکلم والا ہے جو محض م کے طور پر تقطیع ہو رہا ہے، اس کے علاوہ خطوط بہتر تھا واحد خط سے۔ یہ مصرع بدل دو

ساتھ دیتا ہوں مصیبت میں سبھی یاروں کا
میں ہر اک موڑ پہ دل اپنا بڑا رکھتا ہوں
... موڑ کا کیا محل؟ ہر موقع کہنا چاہیے تھا
. میں سبھی کے لئے دل.....
اپنے دل کو میں ہمیشہ ہی بڑا....
وغیرہ

تتلیاں روز تبھی گھر میں چلی آتی ہیں
میں جو گلدان میں کچھ پھول کھلا رکھتا ہوں
.. درست

جوق درجوق چلے آتے ہیں پروانے، میں
شب کو دیوار پہ جب دیپ جلا رکھتا ہوں
... ردیف سے ہی پتہ چل جائے گا کہ فاعل 'میں' ہے، پہلے مصرع میں نکال دو
.... پروانے تمام

گھر میں آئے مرے دستک اسے دینی نہ پڑے
بس یہی سوچ کے دروازہ کھلا رکھتا ہوں
.. درست

کبھی تم کو میں بھلا دوں یہ بھی ہو سکتا ہے
اس لئے زخم محبت کا ہرا رکھتا ہوں
.. یہ بھی 'یبی' تقطیع ہونا اچھا نہیں لگتا
یہ بھی ہو سکتا ہے میں تم کو بھلا ہی بیتھون

رنج سہتا ہوں مگر غم نہیں دیتا کسی کو
کیوں کہ میں دل میں بہت خوفِ خدا رکھتا ہوں
.. کسی کو صرف کسکو تقطیع ہو رہا ہے یہاں
مصرع بدلو، جیسے
رنج سہہ لیتا ہوں، آوروں کو نہیں غم دیتا
یا کچھ اور مصرع

پیار کی اینٹوں سے تعمیر محل کر کے میں
اس کو رنگین سے لفظوں سے سجا رکھتا ہوں
... یہ شعر زبردستی کا لگ رہا ہے۔ لفظوں سے گھر سجایا جاتا ہے؟

مجھ کو معلوم ہے پوری نہیں ہونی میثم
حسرَتِ دل تبھی دل ہی میں دبا رکھتا ہوں
.... تبھی کا استعمال بھی اچھا نہیں ۔
پہلے مصرع میں بھی اگر 'یہ' کا اضافہ کر دیا جائے تو بہتر ہے جیسے
جانتا ہوں کہ یہ پوری...
' دل ہی' کی نسبت 'سینے' کیسا رہے گا؟
'دل کی دل میں' محاورہ کے لئے بھی سوچا جا سکتا ہے
 

یاسر علی

محفلین
شکریہ سر!
درستی کے بعد دوبارہ
الف عین

کبھی آنکھوں کبھی سینے سے لگا رکھتا ہوں
میں کتابوں میں خطوط اس کے چھپا رکھتا ہوں

ساتھ دیتا ہوں مصیبت میں سبھی یاروں کا
اپنے دل کو میں ہمیشہ ہی بڑا رکھتا ہوں

تتلیاں روز تبھی گھر میں چلی آتی ہیں
میں جو گلدان میں کچھ پھول کھلا رکھتا ہوں

جوق درجوق چلے آتے ہیں پروانے تمام
شب کو دیوار پہ جب دیپ جلا رکھتا ہوں

گھر میں آئے مرے دستک اسے دینی نہ پڑے
بس یہی سوچ کے دروازہ کھلا رکھتا ہوں

یہ بھی ممکن ہے کہ تم کو میں بھلا ہی بیٹھوں
اس لئے زخم محبت کا ہرا رکھتا ہوں

رنج سہہ لیتا ہوں اوروں کو نہیں دیتا غم
کیوں کہ میں دل میں بہت خوفِ خدا رکھتا ہوں

جانتا ہوں کہ یہ پوری نہیں ہونی میثم
دل کی حسرت کو میں سینے میں دبا رکھتا ہوں
یا
اس لئے حسرَتِ دل،دل میں دبا رکھتا ہوں
 

الف عین

لائبریرین
Top