برائے اصلاح: کرو کچھ ایسا، شہرِ یار میں درکار ہو جاؤ

مقبول

محفلین
محترم الف عین صاحب ، دیگر اساتذہ کرام اور احباب سے اصلاح کی درخواست کے ساتھ دوغزلے کی دوسری غزل پیش کر رہا ہوں

کرو کچھ ایسا ، شہرِ یار میں درکار ہو جاؤ
نکل کے ہجر سے تم وصل کے حقدار ہو جاؤ

تمہارے عشق پر آخر کوئی کیسے یقیں کر لے
گریباں چاک ہو جب تک نہ تم مَے خوار ہو جاؤ

جہاں ہیں اور اتنے بُت، تمہیں بھی پوج لوں گا میں
تم ایسا کیوں نہیں کرتے، مرے اوتار ہو جاؤ

یہی میں سوچ کر رکھتا ہوں وقفہ تم سے ملنے میں
مسلسل دیکھ کر مجھ کو نہ تُم بیزار ہو جاؤ
————​
مجھے معلوم ہے تم نے سمندر پار جانا ہے
تمہارا عزم ہے میرے لیے دشوار ہو جاؤ

بچھا دی ہے محبت میں نے بھی ہر ایک رستے میں
نہیں ممکن، فصیلِ شہر سے تم پار ہو جاؤ
———-
تمہیں بھی چوم لوں گا میں ،رقیبِ رو سِیَہ، بڑھ کر
بس اک ہے شرط ، میرے چاند کا رخسار ہو جاؤ

یہ میرا سر بھی حاضر ہے تمہارے وار سہنے کو
تمہاری مرضی ہے تم پھول یا تلوار ہو جاؤ

دُکھو، مجھ پر اترتے ہو کہ ورکنگ ڈے ہو جیسے تم
کبھی تو سانس لینے دو، کبھی اتوار ہو جاؤ

کسی چنچل کے پہلو میں جگہ تم ڈھونڈ لو مقبول
مبادا سردی لگنے سے بہت بیمار ہو جاؤ
 

الف عین

لائبریرین
بعد میں دیکھتا ہوں اسے، پچھلی غزل پر بھی وہی گیت یاد آیا تھا جو چین کے حملے کے بعد سینما ہالس میں ویڈیو دکھایاجاتا تھا
وطن کی آبرو خطرے میں ہے، تیار ہو جاؤ
 

الف عین

لائبریرین
کرو کچھ ایسا ، شہرِ یار میں درکار ہو جاؤ
نکل کے ہجر سے تم وصل کے حقدار ہو جاؤ
... درکار ہونا یا ہو جانا محاورے کے خلاف ہے، ہجر سے نکلنا بھی محاورہ نہیں، لیکن شاید دونوں جدتیں قبول کی جا سکیں۔
تمہارے عشق پر آخر کوئی کیسے یقیں کر لے
گریباں چاک ہو جب تک نہ تم مَے خوار ہو جاؤ
... دوسرے مصرعے میں عجز بیان ہے۔ یہاں تک کہ یا تو تمہارا گریباں چاک ہو جائے یا تم خود مے خوار بن جاؤ، یہی کہنے کا مطلب ہے نا؟ جب تک کے ساتھ یہی بات نافیہ طور پر کہی جائے گی یعنی 'جب تک کہ تمہارا گریباں چاک نہ ہو جائے یا تم مے خوار نہ بن جاؤ' ۔ یہ آدھا بیانیہ، گریباں چاک ہو، یہاں تک کے استعمال والا ہے، اور آدھا، نہ تم مے خوار' جب تک والا! مصرع پھر کہو

جہاں ہیں اور اتنے بُت، تمہیں بھی پوج لوں گا میں
تم ایسا کیوں نہیں کرتے، مرے اوتار ہو جاؤ
... اوتار کے درست معنی محض دیوتا نہیں ہیں۔ درست ہندی/سنسکرت معنی' کسی کا روپ اختیار کر لینا' ہے۔ رام اور کرشن کو اوتار اس لئے کہا جاتا ہے کہ ایشور نے ان کا روپ لے لیا تھا ہندوؤں کے بقول۔ اور اسی قافیے پر شعر کی بنیاد ہے تو شعر ہی غلط ہو گیا! 'مرے اوتار ہو جاؤ' یعنی میری شکل اختیار کر لو!

یہی میں سوچ کر رکھتا ہوں وقفہ تم سے ملنے میں
مسلسل دیکھ کر مجھ کو نہ تُم بیزار ہو جاؤ
———— درست

مجھے معلوم ہے تم نے سمندر پار جانا ہے
تمہارا عزم ہے میرے لیے دشوار ہو جاؤ
... تم نے جانا ہے درست اردو نہیں،' تم کو جانا ہے' درست ہے۔
اس کے علاوہ شعر درست ہے

بچھا دی ہے محبت میں نے بھی ہر ایک رستے میں
نہیں ممکن، فصیلِ شہر سے تم پار ہو جاؤ
———- درست

تمہیں بھی چوم لوں گا میں ،رقیبِ رو سِیَہ، بڑھ کر
بس اک ہے شرط ، میرے چاند کا رخسار ہو جاؤ
... بس اک ہے شرط.. والا ٹکڑا روانی متاثر کر رہا ہے، اسے بدلنے کی کوشش کرو

یہ میرا سر بھی حاضر ہے تمہارے وار سہنے کو
تمہاری مرضی ہے تم پھول یا تلوار ہو جاؤ
... مرضی کی ی کا اسقاط اچھا نہیں لگ رہا

دُکھو، مجھ پر اترتے ہو کہ ورکنگ ڈے ہو جیسے تم
کبھی تو سانس لینے دو، کبھی اتوار ہو جاؤ
... قافیہ لانے کی زبردستی مگر زبردست کوشش! درست

کسی چنچل کے پہلو میں جگہ تم ڈھونڈ لو مقبول
مبادا سردی لگنے سے بہت بیمار ہو جاؤ
... سردی کی ی بھی گرادی گئی ہے۔
کہیں سردی کہ لگ جائے جو تم بیمار...
ہو سکتا ہے
 

مقبول

محفلین
استادِ محترم الف عین صاحب
سر، ابتدائی طور پر کم سے کم تبدیلی سے تصیح کی کوشش کی ہے۔ اگر کام نہ بنا تو پھر میجر آپریشن کی طرف جاؤں گا۔ مزید ایک مطلع اور ایک شرارتی سا شعر بھی ہو گئے ہیں ۔
یہ دیکھیے

کرو کچھ ایسا ، شہرِ یار میں درکار ہو جاؤ
کہ شاید اس طرح تم وصل کے حقدار ہو جاؤ

اب اتنا بھی نہ میرے یار پُر اسرار ہو جاؤ
یا
اب اتنا بھی نہ میرے یار تُم پُر خار ہو جاؤ
کہ آخر قلتِ عشّاق سے دو چار ہو جاؤ

تمہارے عشق پر آخر کوئی کیسے یقیں کر لے
نہ جب تک ہو گریباں چاک یا مَے خوار ہو جاؤ

جہاں ہیں اور اتنے بُت، تمہیں بھی پوج لوں گا میں
خدا کے، تم بھی اوروں/لوگوں کی طرح ،اوتار ہو جاؤ

یہی میں سوچ کر رکھتا ہوں وقفہ تم سے ملنے میں
مسلسل دیکھ کر مجھ کو نہ تُم بیزار ہو جاؤ

مجھے معلوم ہے تم کو سمندر پار جانا ہے
تمہارا عزم ہے میرے لیے دشوار ہو جاؤ

بچھا دی ہے محبت میں نے بھی ہر ایک رستے میں
نہیں ممکن، فصیلِ شہر سے تم پار ہو جاؤ

تمہیں بھی چوم لوں گا میں ،رقیبِ رو سِیَہ، بڑھ کر
ہے اتنی شرط ، میرے چاند کا رخسار ہو جاؤ

مِرا سَر تک بھی حاضر ہے تمہارے وار سہنے کو
یہ ہے مرضی تمہاری ، پھول یا تلوار ہو جاؤ

دُکھو، مجھ پر اترتے ہو کہ ورکنگ ڈے ہو جیسے تم
کبھی تو سانس لینے دو، کبھی اتوار ہو جاؤ

رہیں دو چار معشوقیں تمہاری جیب میں ہر وقت
کم از کم عشق میں اتنے تو اب فنکار ہو جاؤ

کسی چنچل کے پہلو میں جگہ تم ڈھونڈ لو مقبول
کہیں ایسا نہ ہو سردی سے تم بیمار ہو جاؤ
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
درست ہو گئے ہیں اشعار لیکن معشوقیں کوئی لفظ نہیں۔ معشوق مذکر/مونث بھی ہے اور جمع بھی۔ معشوقہ واحد بھی مستعمل ہے لیکن اس کی جمع معشوقائیں ہوتی ہے۔
رکھو دو چار محبوبائیں اپنی جیب میں ہر دم
بہتر مصرع ہو گا
 

مقبول

محفلین
درست ہو گئے ہیں اشعار لیکن معشوقیں کوئی لفظ نہیں۔ معشوق مذکر/مونث بھی ہے اور جمع بھی۔ معشوقہ واحد بھی مستعمل ہے لیکن اس کی جمع معشوقائیں ہوتی ہے۔
رکھو دو چار محبوبائیں اپنی جیب میں ہر دم
بہتر مصرع ہو گا
سر الف عین
بہت شُکریہ
اس مطلع میں کونسا مصرعہ اولیٰ بہتر ہو گا
اب اتنا بھی نہ میرے یار پُر اسرار ہو جاؤ
یا
اب اتنا بھی نہ میرے یار تُم پُر خار ہو جاؤ
کہ آخر قلتِ عشّاق سے دو چار ہو جاؤ

مزید ،اس شعر کے مصرعہ دوم میں اوروں بہتر ہو گا یا لوگوں
جہاں ہیں اور اتنے بُت، تمہیں بھی پوج لوں گا میں
خدا کے، تم بھی اوروں/لوگوں کی طرح ،اوتار ہو جاؤ
 

مقبول

محفلین

الف عین

لائبریرین
سر الف عین
بہت شُکریہ
اس مطلع میں کونسا مصرعہ اولیٰ بہتر ہو گا
اب اتنا بھی نہ میرے یار پُر اسرار ہو جاؤ
یا
اب اتنا بھی نہ میرے یار تُم پُر خار ہو جاؤ
کہ آخر قلتِ عشّاق سے دو چار ہو جاؤ

مزید ،اس شعر کے مصرعہ دوم میں اوروں بہتر ہو گا یا لوگوں
جہاں ہیں اور اتنے بُت، تمہیں بھی پوج لوں گا میں
خدا کے، تم بھی اوروں/لوگوں کی طرح ،اوتار ہو جاؤ
پر اسرار قافیہ والا بہتر ہو گا
اوروں متبادل بہتر ہے
 
Top