برائے اصلاح : کس دن تِرے خیال میں کھویا نہیں گیا

اشرف علی

محفلین
محترم الف عین سر ، محترم یاسر شاہ سر
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔

~~~~~~~~~~

جس رات تیری یاد میں کھویا نہیں گیا
اس رات مجھ سے ٹھیک سے سویا نہیں گیا

اگتی نہ فصلِ عشق کبھی اِس میں ، تخمِ عقل !
صد شکر ، کشتِ دل میں تٗو بویا نہیں گیا

تھا اتنا سخت جان کہ مجھ سے بچھڑتے وقت
اُس شخص سے ذرا سا بھی رویا نہیں گیا

مجبوریوں پہ اُس کی ، کچھ اک شک سا ہے مجھے
تجھ کو تو جان کر کہیں کھویا نہیں گیا ؟

تنگ آ کے میں چلا گیا پھر خود ہی اُس کے گھر
جب بوجھ انتظار کا ڈھویا نہیں گیا

میں نے مدد بھی نیند کی گولی کی لی مگر
مجھ سے شبِ فراق میں سویا نہیں گیا

وہ کوٹ جس پہ تیرے لبوں کے نشان ہیں
وہ مجھ سے آج تک کبھی دھویا نہیں گیا

دیتا جہاں کو غنچہ و برگ و ثمر وہ بھی
افسوس ! اُس کو خاک میں بویا نہیں گیا

کس روز میرے دھیان میں آیا نہیں ہے تٗو
کس دن تِرے خیال میں کھویا نہیں گیا

اشرف ! وہ جا چکا ہے تو پھر کیوں یہ لگتا ہے
اب بھی یہیں کہیں ہے وہ گویا نہیں گیا
 

الف عین

لائبریرین
محترم الف عین سر ، محترم یاسر شاہ سر
آداب !
آپ سے اصلاح و رہنمائی کی درخواست ہے ۔

~~~~~~~~~~

جس رات تیری یاد میں کھویا نہیں گیا
اس رات مجھ سے ٹھیک سے سویا نہیں گیا
پچھلا ٹیگ مجھے نہیں ملا!
کھویا جانا مجھے غلط فعل لگ رہا ہے، یہ کوئی جان بوجھ کر نہیں کرتا۔ محل تو صرف نہیں کھویا کا ہے، بہتر ہے کہ دوسرا مطلع کہو اور اس کا مصرع اولی بدل دو

اگتی نہ فصلِ عشق کبھی اِس میں ، تخمِ عقل !
صد شکر ، کشتِ دل میں تٗو بویا نہیں گیا
مجہول بیانیہ ہو گیا، تٗو بویا نہیں گیا؟ واضح بھی نہیں
تھا اتنا سخت جان کہ مجھ سے بچھڑتے وقت
اُس شخص سے ذرا سا بھی رویا نہیں گیا
شخص سے... تنافر لگتا ہے
مجبوریوں پہ اُس کی ، کچھ اک شک سا ہے مجھے
تجھ کو تو جان کر کہیں کھویا نہیں گیا ؟
میں سمجھ نہیں سکا
تنگ آ کے میں چلا گیا پھر خود ہی اُس کے گھر
جب بوجھ انتظار کا ڈھویا نہیں گیا
درست
میں نے مدد بھی نیند کی گولی کی لی مگر
مجھ سے شبِ فراق میں سویا نہیں گیا
درست
وہ کوٹ جس پہ تیرے لبوں کے نشان ہیں
وہ مجھ سے آج تک کبھی دھویا نہیں گیا
منور رانا بلکہ ان کی ماں کی اوڑھنی یاد آ گئی!
لیکن کوٹ کو خود کون دھوتا ہے، ڈرائی کلین کرایا جاتا ہے! کوٹ کی جگہ شرٹ ہی رکھو
دیتا جہاں کو غنچہ و برگ و ثمر وہ بھی
افسوس ! اُس کو خاک میں بویا نہیں گیا
.بیکار کا شعر ہے، اسے نکال ہی دو
کس روز میرے دھیان میں آیا نہیں ہے تٗو
کس دن تِرے خیال میں کھویا نہیں گیا
درست
اشرف ! وہ جا چکا ہے تو پھر کیوں یہ لگتا ہے
اب بھی یہیں کہیں ہے وہ گویا نہیں گیا
لگتا ہے.. کے الف کا اسقاط اچھا نہیں
.. تو لگتا ہے پھر یہ کیوں
 

اشرف علی

محفلین
مجہول بیانیہ ہو گیا، تٗو بویا نہیں گیا؟ واضح بھی نہیں
اسے نکال دیتا ہوں سر
بیکار کا شعر ہے، اسے نکال ہی دو
ٹھیک ہے سر
لگتا ہے.. کے الف کا اسقاط اچھا نہیں
.. تو لگتا ہے پھر یہ کیوں
او ! شکریہ سر
شخص سے... تنافر لگتا ہے
سر ! اب دیکھیے ۔۔۔

تھا اتنا سخت جان کہ مجھ سے بچھڑتے وقت
اس سے برائے نام بھی رویا نہیں گیا

کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ ترکِ محبت کے پیچھے کوئی مجبوری نہیں ہے بلکہ جان بوجھ کے ایسا کیا گیا ہے شاید

مجبوریوں پہ اُس کی، کچھ اک شک سا ہے مجھے
تجھ کو جان کر کہیں کھویا نہیں گیا ؟

منور رانا بلکہ ان کی ماں کی اوڑھنی یاد آ گئی!
لیکن کوٹ کو خود کون دھوتا ہے، ڈرائی کلین کرایا جاتا ہے! کوٹ کی جگہ شرٹ ہی رکھو
پہلے" شرٹ" ہی رکھے تھے سر ، پھر لگا "شرٹ" مؤنث ہے تو قافیہ "دھویا" فٹ نہیں بیٹھے گا ۔۔۔اس لیے مذکر لفظ لانا پڑا

وہ شرٹ جس پہ تیرے لبوں کے نشان ہیں
وہ مجھ سے آج تک کبھی دھویا نہیں گیا

اصلاح و رہنمائی فرمانے کا بہت بہت شکریہ سر ، جزاک اللہ خیر
 

اشرف علی

محفلین
یہ اشعار بہتر ہو گئے
بہت بہت شکریہ سر ، جزاک اللہ خیر

کیا شرٹ والا شعربھی ٹھیک ہو گیا سر؟
پہلے" شرٹ" ہی رکھے تھے سر ، پھر لگا "شرٹ" مؤنث ہے تو قافیہ "دھویا" فٹ نہیں بیٹھے گا ۔۔۔اس لیے مذکر لفظ لانا پڑا

وہ شرٹ جس پہ تیرے لبوں کے نشان ہیں
وہ مجھ سے آج تک کبھی دھویا نہیں گیا
کیا یہ بھی ٹھیک ہے ؟



سر ، دیکھیے ۔۔۔

اشکوں میں ، ایک شہر ڈبویا نہیں گیا
نادم ہوں ، مجھ سے اتنا بھی رویا نہیں گیا
یا
چہرہ بھی آنسوؤں سے بھگویا نہیں گیا
نادم ہوں ، مجھ سے ہجر میں رویا نہیں گیا



کھویا جانا مجھے غلط فعل لگ رہا ہے، یہ کوئی جان بوجھ کر نہیں کرتا۔ محل تو صرف نہیں کھویا کا ہے، بہتر ہے کہ دوسرا مطلع کہو اور اس کا مصرع اولی بدل دو
کیا اب ٹھیک ہے سر ؟

جس رات تم سے فون پہ باتیں نہیں ہوئیں
اس رات مجھ سے ٹھیک سے سویا نہیں گیا
 

اشرف علی

محفلین
.مطلع کی دونوں شکلیں درست ہیں کوئی سا بھی رکھ لو
دوسرا شعر بھی بہترہو گیا
ٹھیک ہے سر
واااہ !
بہت بہت شکریہ سر ، جزاک اللہ خیر

مقطع بدلنا چاہتا ہوں سر ،ان میں سے کوئی چلے گا ؟

اشرف ! سخن سرائی کا کیا فائدہ کہ جب
شعروں میں دل کا حال پرویا نہیں گیا
یا
اشرف ! یہ بات سچ ہے کہ اس بحرِ عشق میں
جبراً کبھی کسی کو ڈبویا نہیں گیا
 

اشرف علی

محفلین
لیکن پچھلے مقطع میں کیا قباحت تھی؟
گوگل میں کچھ سرچ کر رہا تھا تو محترم مقبول بھائی کی ایک غزل سامنے آ گئی ، اسی زمین میں ۔۔۔
اس غزل کا مقطع کچھ یوں تھا ۔۔۔

مقبول، گرچہ شہر سے وُہ جا چُکا مرے
رہتا ہے دل میں اب بھی وہ، گویا نہیں گیا


اور میرا مقطع بھی کچھ ایسا ہی ہے ۔۔۔

اشرف ! وہ جا چکا ہے تولگتا ہے پھر یہ کیوں
اب بھی یہیں کہیں ہے وہ گویا نہیں گیا

اس لیے مجھے لگا مقطع بدل دینا ہی بہتر ہوگا
 
آخری تدوین:

اشرف علی

محفلین
نظر ثانی کی درخواست ہے سر !
~~~~~~~~~
چہرہ بھی آنسوؤں سے بھگویا نہیں گیا
نادم ہوں ، مجھ سے ہجر میں رویا نہیں گیا

جس رات تم سے فون پہ باتیں نہیں ہوئیں
اُس رات مجھ سے ٹھیک سے سویا نہیں گیا

تنگ آ کے میں چلا گیا پھر خود ہی اُس کے گھر
جب بوجھ انتظار کا ڈھویا نہیں گیا

تھا اتنا سخت جان کہ مجھ سے بچھڑتے وقت
اُس سے برائے نام بھی رویا نہیں گیا

مجبوریوں پہ اُس کی ، کچھ اک شک سا ہے مجھے
تجھ کو تو جان کر کہیں کھویا نہیں گیا ؟

میں نے مدد بھی نیند کی گولی کی لی مگر
مجھ سے شبِ فراق میں سویا نہیں گیا

وہ شرٹ جس پہ تیرے لبوں کے نشان ہیں
وہ مجھ سے آج تک کبھی دھویا نہیں گیا

کس روز میرے دھیان میں آیا نہیں ہے تٗو
کس دن تِرے خیال میں کھویا نہیں گیا

اشرف ! سخن سرائی کا کیا فائدہ کہ جب
شعروں میں دل کا حال پرویا نہیں گیا
 

اشرف علی

محفلین
اصلاح کے بعد
~~~~~~~~~
چہرہ بھی آنسوؤں سے بھگویا نہیں گیا
نادم ہوں ، مجھ سے ہجر میں رویا نہیں گیا

جس رات تجھ سے فون پہ باتیں نہیں ہوئیں
اُس رات مجھ سے ٹھیک سے سویا نہیں گیا

تنگ آ کے میں چلا گیا پھر خود ہی اُس کے گھر
جب بوجھ انتظار کا ڈھویا نہیں گیا

تھا اتنا سخت جان کہ مجھ سے بچھڑتے وقت
اُس سے برائے نام بھی رویا نہیں گیا

مجبوریوں پہ اُس کی ، کچھ اک شک سا ہے مجھے
تجھ کو تو جان کر کہیں کھویا نہیں گیا ؟

میں نے مدد بھی نیند کی گولی کی لی مگر
مجھ سے شبِ فراق میں سویا نہیں گیا

وہ شرٹ جس پہ تیرے لبوں کے نشان ہیں
وہ مجھ سے آج تک کبھی دھویا نہیں گیا

کس روز میرے دھیان میں آیا نہیں ہے تٗو
کس دن تِرے خیال میں کھویا نہیں گیا

اشرف ! سخن سرائی کا کیا فائدہ کہ جب
شعروں میں دل کا حال پرویا نہیں گیا
 

اشرف علی

محفلین
اصلاح کے بعد
~~~~~~~~~
چہرہ بھی آنسوؤں سے بھگویا نہیں گیا
نادم ہوں ، مجھ سے ہجر میں رویا نہیں گیا

جس رات تجھ سے فون پہ باتیں نہیں ہوئیں
اُس رات مجھ سے ٹھیک سے سویا نہیں گیا

تنگ آ کے میں چلا گیا پھر خود ہی اُس کے گھر
جب بوجھ انتظار کا ڈھویا نہیں گیا

تھا اتنا سخت جان کہ مجھ سے بچھڑتے وقت
اُس سے برائے نام بھی رویا نہیں گیا

مجبوریوں پہ اُس کی ، کچھ اک شک سا ہے مجھے
تجھ کو تو جان کر کہیں کھویا نہیں گیا ؟

میں نے مدد بھی نیند کی گولی کی لی مگر
مجھ سے شبِ فراق میں سویا نہیں گیا

وہ شرٹ جس پہ تیرے لبوں کے نشان ہیں
وہ مجھ سے آج تک کبھی دھویا نہیں گیا

کس روز میرے دھیان میں آیا نہیں ہے تٗو
کس دن تِرے خیال میں کھویا نہیں گیا

اشرف ! سخن سرائی کا کیا فائدہ کہ جب
شعروں میں دل کا حال پرویا نہیں گیا
حوصلہ افزائی کا بہت بہت شکریہ محمد عبدالرؤوف بھائی ، جزاک اللہ خیر
 
Top