برائے اصلاح: کچھ ایسے زندگی کے دُکھ ہیں ،سُنا نہ پائیں

مقبول

محفلین
سر الف عین
ایک غزل اصلاح کے لیے آپ کی خدمت میں پیش ہے

کچھ ایسے زندگی کے دُکھ ہیں ،سُنا نہ پائیں
کچھ ایسے زخمِ بھی ہیں ہم جو دکھا نہ پائیں

باقی تو سارا گھر ہی جھونکا ہے آگ میں، پر
اس کے لکھے ہوئے جو خط ہیں جلا نہ پائیں

ہم نے ہے کی محبت، جرمِ عظیم ہے جو
ہم اپنے پھر کیے کی کیسے سزا نہ پائیں

وُہ زندگی میں ہم کو ہیں کر چکے فراموش
مر کے بھی ہم تو جن کو شاید بھلا نہ پائیں

جن کے ہے پاس دل کا اپنے علاج ممکن
کوئی عجب نہیں ہم ان سے دوا نہ پائیں

یہ دور ظلم کا ہے حکم آیا ہے کہ عاشق
رو بھی رہے اگر ہوں، آنسو بہا نہ پائیں

چوری کریں کہاں سے، ماریں کہاں پہ ڈاکہ
جتنا ہے خرچ اتنا ہم تو کما نہ پائیں

ناراض ان سے ہونا بس میں نہیں ہے اپنے
چاہیں اگر بھی ہم تو دیوار اٹھا نہ پائیں

مقبول کیا بڑھائیں ہم ان سے اب تعلق
قسمیں جو توڑ ڈالیں ، وعدے نبھا نہ پائیں
 

الف عین

لائبریرین
نہیں مقبول ، یہ زمین ہی عجیب ہے۔ بہت مجہول بیانیہ پر مشتمل۔بغیر "ہم" کے "نہ پائیں" ردیف ہی غلط لگتی ہے جو ہر ثانی مصرعے میں موجود نہیں ۔ اگر بحر ہی بدل کر " نہیں سکتے" قسم کی ردیف میں تبدیلی کی جائے تو بہتر ہے۔ بیانیہ بھی زیادہ تر اشعار میں بے ترتیب لگتا ہے، عدم روانی کاشکار۔
دوسرے احباب کا کیا خیال ہے؟ سید عاطف علی عظیم یاسر شاہ ظہیراحمدظہیر
 

عظیم

محفلین
نہیں مقبول ، یہ زمین ہی عجیب ہے۔ بہت مجہول بیانیہ پر مشتمل۔بغیر "ہم" کے "نہ پائیں" ردیف ہی غلط لگتی ہے جو ہر ثانی مصرعے میں موجود نہیں ۔ اگر بحر ہی بدل کر " نہیں سکتے" قسم کی ردیف میں تبدیلی کی جائے تو بہتر ہے۔ بیانیہ بھی زیادہ تر اشعار میں بے ترتیب لگتا ہے، عدم روانی کاشکار۔
دوسرے احباب کا کیا خیال ہے؟ سید عاطف علی عظیم یاسر شاہ ظہیراحمدظہیر
میں تو آپ کے ارشادات کے بعد خود کو کچھ بھی کہنے کا اہل نہیں سمجھتا بابا، جو آپ نے فرمایا ہے وہی درست ہے اور اسی سے اتفاق ہے مجھے
 
Top