مقبول
محفلین
سر الف عین
معذورت چاہتا ہوں کہ یہ 27 اشعار پر مشتمل میراتھن غزل اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہے جو کہ ایک چیلنج کی وجہ سے وجود میں آ ئی ہے۔ چیلنج یہ ہے کہ ردیف (میں کوئی کیا دیکھے) ہو گی،، بحر چھوٹی اور غزل جتنی بھی طویل ہو سکے۔ غزل کی طوالت کے لیے پھر معذرت ۔
حکمرانوں میں کوئی کیا دیکھے
کھوٹے سکّوں میں کوئی کیا دیکھے
اک جھلک تیری دیکھ پائے اگر
پھر خیالوں میں کوئی کیا دیکھے
جن کے پیچھے تمہارا نام نہیں
ان لفافوں میں کوئی کیا دیکھے
میں تو بس اول فول بکتا ہوں
میری باتوں میں کوئی کیا دیکھے
چاند اب دور دیس بستے ہیں
چاند راتوں میں کوئی کیا دیکھے
بھوک و افلاس کا ہو ڈیرہ جہاں
ان نگاہوں میں کوئی کیا دیکھے
دیکھ کر تیرے گال کی سرخی
پھر گلابوں میں کوئی کیا دیکھے
خیر خواہوں سے خیر ملتی نہیں
خیر خواہوں میں کوئی کیا دیکھے
اب تو شرفا ہیں کرتے رقص و سرود
جا کے کوٹھوں میں کوئی کیا دیکھے
پھٹ چُکے ہوں جو کر کے مزدوری
ایسے ہاتھوں میں کوئی کیا دیکھے
اب تو دن بھی ہیں رات کی مانند
ان اندھیروں میں کوئی کیا دیکھے
جن کی آنکھیں نہ بول سکتی ہوں
ایسے چہروں میں کوئی کیا دیکھے
کوئی امید اب نہیں باقی
اب کے خوابوں میں کوئی کیا دیکھے
ظلم بڑھتا ہوا نہ دیکھے تو
خوں کے قطروں میں کوئی کیا دیکھے
تیرے پیروں کی جن پہ چھاپ نہیں
ایسے رستوں میں کوئی کیا دیکھے
میری غزلوں میں روتے منظر ہیں
میری غزلوں میں کوئی کیا دیکھے
وقتِ رخصت تو جاں نکلتی ہے
ان کی آنکھوں میں کوئی کیا دیکھے
تن فروشوں کا یہ زمانہ ہے
سر فروشوں میں کوئی کیا دیکھے
سبھی کے دُکھ پہاڑ جتنے ہیں
میرے دردوں میں کوئی کیا دیکھے
جن کے کردار پر ہوں اٹھتے سوال
ان عماموں میں کوئی کیا دیکھے
آنے والوں کی تاج پوشی ہے
جانے والوں میں کوئی کیا دیکھے
جن دریچوں میں تم نہیں ہوتے
ان دریچوں میں کوئی کیا دیکھے
ہم کسی کو بھی کیا دے سکتے ہیں
ہم فقیروں میں کوئی کیا دیکھے
سارے موسم تو اس کے دم سے تھے
اب بہاروں میں کوئی کیا دیکھے
اچھی صورت بھی ایک نعمت ہے
میرے جیسوں میں کوئی کیا دیکھے
کون لے دل کی بھی تلاشی اب
چار خانوں میں کوئی کیا دیکھے
اس کی تصویر کے سوا مقبول
میری آنکھوں میں کوئی کیا دیکھے
معذورت چاہتا ہوں کہ یہ 27 اشعار پر مشتمل میراتھن غزل اصلاح کے لیے پیش کر رہا ہے جو کہ ایک چیلنج کی وجہ سے وجود میں آ ئی ہے۔ چیلنج یہ ہے کہ ردیف (میں کوئی کیا دیکھے) ہو گی،، بحر چھوٹی اور غزل جتنی بھی طویل ہو سکے۔ غزل کی طوالت کے لیے پھر معذرت ۔
حکمرانوں میں کوئی کیا دیکھے
کھوٹے سکّوں میں کوئی کیا دیکھے
اک جھلک تیری دیکھ پائے اگر
پھر خیالوں میں کوئی کیا دیکھے
جن کے پیچھے تمہارا نام نہیں
ان لفافوں میں کوئی کیا دیکھے
میں تو بس اول فول بکتا ہوں
میری باتوں میں کوئی کیا دیکھے
چاند اب دور دیس بستے ہیں
چاند راتوں میں کوئی کیا دیکھے
بھوک و افلاس کا ہو ڈیرہ جہاں
ان نگاہوں میں کوئی کیا دیکھے
دیکھ کر تیرے گال کی سرخی
پھر گلابوں میں کوئی کیا دیکھے
خیر خواہوں سے خیر ملتی نہیں
خیر خواہوں میں کوئی کیا دیکھے
اب تو شرفا ہیں کرتے رقص و سرود
جا کے کوٹھوں میں کوئی کیا دیکھے
پھٹ چُکے ہوں جو کر کے مزدوری
ایسے ہاتھوں میں کوئی کیا دیکھے
اب تو دن بھی ہیں رات کی مانند
ان اندھیروں میں کوئی کیا دیکھے
جن کی آنکھیں نہ بول سکتی ہوں
ایسے چہروں میں کوئی کیا دیکھے
کوئی امید اب نہیں باقی
اب کے خوابوں میں کوئی کیا دیکھے
ظلم بڑھتا ہوا نہ دیکھے تو
خوں کے قطروں میں کوئی کیا دیکھے
تیرے پیروں کی جن پہ چھاپ نہیں
ایسے رستوں میں کوئی کیا دیکھے
میری غزلوں میں روتے منظر ہیں
میری غزلوں میں کوئی کیا دیکھے
وقتِ رخصت تو جاں نکلتی ہے
ان کی آنکھوں میں کوئی کیا دیکھے
تن فروشوں کا یہ زمانہ ہے
سر فروشوں میں کوئی کیا دیکھے
سبھی کے دُکھ پہاڑ جتنے ہیں
میرے دردوں میں کوئی کیا دیکھے
جن کے کردار پر ہوں اٹھتے سوال
ان عماموں میں کوئی کیا دیکھے
آنے والوں کی تاج پوشی ہے
جانے والوں میں کوئی کیا دیکھے
جن دریچوں میں تم نہیں ہوتے
ان دریچوں میں کوئی کیا دیکھے
ہم کسی کو بھی کیا دے سکتے ہیں
ہم فقیروں میں کوئی کیا دیکھے
سارے موسم تو اس کے دم سے تھے
اب بہاروں میں کوئی کیا دیکھے
اچھی صورت بھی ایک نعمت ہے
میرے جیسوں میں کوئی کیا دیکھے
کون لے دل کی بھی تلاشی اب
چار خانوں میں کوئی کیا دیکھے
اس کی تصویر کے سوا مقبول
میری آنکھوں میں کوئی کیا دیکھے
آخری تدوین: